جمعہ، 17 دسمبر، 2021

بیٹیاں، بیوی اور بہن بھائیوں میں میراث کی تقسیم

سوال :

محترم مفتی صاحب ! زید کا انتقال ہوگیا ہے۔ زید کو کل تین لڑکیاں ہیں اور بیوی بھی حیات ہے۔ اسی طرح زید کے چار بھائی اور ایک بہن ہے، جس میں بڑے بھائی کا زید سے پہلے انتقال ہوچکا ہے اس کے دو بچے ہیں ایک لڑکا اور ایک لڑکی۔ زید کی کل ملکیت دیڑھ کروڑ کی ہے۔ لیکن زید نے اپنی حیاتی میں پچاس لاکھ کی ملکیت اپنی تینوں بیٹیوں کو دے دی ہے، اور زید پر کوئی قرض یا اس کی کوئی وصیت بھی نہیں ہے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ ترکہ کیسے تقسیم ہوگا؟
(المستفتی : عتیق الرحمن، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں جبکہ زید نے اپنی زندگی میں پچاس لاکھ کی جائیداد بیٹیوں کو دے کر انہیں اس کا مالک بنادیا ہے تو یہ پچاس لاکھ کی جائداد اس کی ملکیت سے نکل گئی ہے۔ چونکہ زید پر قرض نہیں ہے اور نہ ہی اس کی کوئی وصیت ہے لہٰذا اب صرف ایک کروڑ روپے کی ملکیت ترکہ بنے گی اور ذیل کے مطابق وارثین میں تقسیم ہوگی۔

مرحوم زید کی بیوی کو اولاد کی موجودگی میں کل مال کا آٹھواں حصہ یعنی 1250000 روپے ملیں گے۔

مرحوم زید کی کوئی اولاد نرینہ نہیں ہے، صرف تین بیٹیاں ہیں تو انہیں ثلثان یعنی دو تہائی مال ملے گا، جو اُن میں برابر برابر تقسیم ہوگا۔ لہٰذا ایک بیٹی کو 2222222.2 روپے ملیں گے۔

میت کے بھائی بہن عصبہ ہوں گے اور بقیہ مال ان کے درمیان للذكر مثل حظ الانثیین (ایک بھائی کو دو بہنوں کے برابر) کے تحت تقسیم ہوگا۔ لہٰذا ایک بھائی کو 595238.1 روپے ملیں گے۔ اور بہن کو 297619 روپے ملیں گے۔

قال اللہُ تعالیٰ : فَاِنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَہُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِیَّْۃٍ تُوْصُوْنَ بِہَا اَوْ دَیْنٍ۔ (سورۃ النساء، جزء آیت : ۱۲)

وقال تعالیٰ : فَاِنْ کُنَّ نِسَآئً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَہُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ۔ (سورۃ النساء، جزء آیت : ۱۱)

وقال تعالیٰ : وَاِنْ کَانُوْا اِخْوَۃً رِّجَالاً وَنِسَآئً فَلِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ۔ (سورۃ النساء، جزء آیت : ۱۷۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 جمادی الاول 1443

1 تبصرہ:

بوگس ووٹ دینے کا حکم