سوال :
مفتی صاحب مسئلہ یہ کہ ایک شادی شدہ عورت ہے اسکے دو لڑکے ہیں اور اس کا شوہر تقریباً تین سال آٹھ ماہ سے غائب ہے، اس کا کوئی پتہ نہیں چل پارہا ہے کہ وہ حیات بھی یا نہیں؟ کیا اب وہ شادی کرسکتی ہے یا پھر اسے کتنی مدت تک انتظار کرنا چاہیے؟ مفصل جواب عنایت فرمائیں
عین نوازش ہوگی۔
(المستفتی : مولوی یونس، پیٹھن)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : موجودہ زمانہ میں جبکہ تقریباً ہر علاقے میں دارالقضاء کی سہولت ہوگئی ہے۔ لہٰذا یہ مسئلہ آسانی سے حل ہوجائے گا۔ اس کی صورت یہ ہے کہ یہ عورت شرعی عدالت اور دارالقضاء میں اپنا مسئلہ لے کر جائے۔ جہاں شرعی عدالت اس کے شوہر کو اپنے ممکنہ ذرائع سے تلاش کرنے کی کوشش کرے گی۔ اگر شوہر کہیں مل جائے یا اس کی موت قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہوجائے تو اس کے اعتبار سے حکم لاگو ہوگا۔ اور اگر شوہر کا کچھ بھی پتہ نہ چل سکے جیسا کہ سوال نامہ میں مذکور ہے تو عورت کے حالات کو دیکھتے ہوئے مثلاً اس کے نان ونفقہ کی تنگی اور گناہ میں مبتلا ہونے کے اندیشہ کے پیش نظر ایک سال کی مدت کے بعد قاضی اس عورت کا نکاح گمشدہ شوہر سے فسخ کردے گا جو طلاق رجعی شمار ہوگی۔ لہٰذا تین ماہواری عدت گذارنے کے بعد یہ عورت دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔ تاہم اگر فسخ نکاح کے بعد گمشدہ شوہر واپس آجائے تو یہ اسی کے نکاح میں لوٹ جائے گی۔ ملحوظ رہنا چاہیے کہ شرعی طریقہ پر تفریق کے بغیر اپنے طور پر نکاح کرلینا اس عورت کے لیے جائز نہ ہوگا۔ لہٰذا اس کا بہت خیال رکھا جائے۔ یہ ساری تفصیلات حکیم الامت حضرت علامہ اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے الحیلۃ الناجزہ میں لکھی ہیں۔
وأمّا تَخْيِيرُهُ إيّاهُ بَيْنَ أنْ يَرُدَّها عَلَيْهِ وبَيْنَ المَهْرِ فَهُوَ بِناءٌ عَلى مَذْهَبِ عُمَرَ فِي المَرْأةِ إذا نُعِيَ إلَيْها زَوْجُها فاعْتَدَّتْ، وتَزَوَّجَتْ ثُمَّ أتى الزَّوْجُ الأوَّلُ حَيًّا إنّهُ يُخَيَّرُ بَيْنَ أنْ تُرَدَّ عَلَيْهِ وبَيْنَ المَهْرِ، وقَدْ صَحَّ رُجُوعُهُ عَنْهُ إلى قَوْلِ عَلِيٍّ، فَإنَّهُ كانَ يَقُولُ تُرَدُّ إلى زَوْجِها الأوَّلِ، ويُفَرَّقُ بَيْنَها وبَيْنَ الآخَرِ، ولَها المَهْرُ بِما اسْتَحَلَّ مِن فَرْجِها، ولا يَقْرَبُها الأوَّلُ حَتّى تَنْقَضِيَ عِدَّتُها مِن الآخَرِ وبِهَذا كانَ يَأْخُذُ إبْراهِيمُ فَيَقُولُ : قَوْلُ عَلِيٍّ أحَبُّ إلَيَّ مِن قَوْلِ عُمَرَ، وبِهِ نَأْخُذُ أيْضًا؛ لِأنَّهُ تَبَيَّنَ أنَّها تَزَوَّجَتْ، وهِيَ مَنكُوحَةٌ ومَنكُوحَةُ الغَيْرِ لَيْسَتْ مِن المُحَلَّلاتِ بَلْ هِيَ مِن المُحَرَّماتِ فِي حَقِّ سائِرِ النّاسِ۔ (المبسوط للسرخسی : ١١/٣٧)
والمحصنٰت من النساء عطف علی أمہاتکم یعنی حرمت علیکم المحصنٰت من النساء أی ذوات الأزواج لا یحل للغیر نکاحہن مالم یمت زوجہا، أو یطلقہا و تنقضی عدتہا من الوفات أو الطلاق۔ (تفسیر مظہری، سورۃ النساء، تحت رقم : ۲۴، زکریا دیوبند، ۲/۶۴)
أَمَّا نِكَاحُ مَنْكُوحَةِ الْغَيْرِ وَمُعْتَدَّتِهِ فَالدُّخُولُ فِيهِ لَا يُوجِبُ الْعِدَّةَ إنْ عُلِمَ أَنَّهَا لِلْغَيْرِ لِأَنَّهُ لَمْ يَقُلْ أَحَدٌ بِجَوَازِهِ فَلَمْ يَنْعَقِدْ أَصْلًا۔ (شامی : ٣/١٣٢)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 جمادی الاول 1443
الجواب صحیح
مفتی حسنین محفوظ نعمانی
قاضی شریعت دارالقضاء، مالیگاؤں
جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء مفتی صاحب
جواب دیںحذف کریں