پیر، 13 دسمبر، 2021

خالہ بھانجی کو بیک وقت نکاح میں رکھنا

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ زید کے نکاح میں ایک عورت ہندہ ہے اب وہ اپنی سالی کی لڑکی یعنی ہندہ کی بھانجی زینب سے بھی نکاح کرنا چاہتا ہے۔ تو کیا خالہ بھانجی کو بیک وقت نکاح میں رکھنا جائز ہوگا؟ شریعتِ مطہرہ کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں۔
(المستفتی : ابرار احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ایسی دو عورتوں کو بیک وقت نکاح میں رکھنا جائز نہیں ہے جن میں سے ایک کو اگر مرد فرض کیا جائے تو اس کا دوسری عورت سے نکاح جائز نہ ہو، آپ نے جو صورت بتائی ہے اس میں یہی معاملہ ہورہا ہے کہ اگر بھانجی کو مرد مان لیا جائے تو خالہ سے اس کا نکاح حرام ہے اور اگر خالہ کو مرد سمجھا جائے تو یہ ماموں ہوگا اور اس کا نکاح بہن کی بیٹی یعنی بھانجی سے جائز نہ ہوگا۔ اور حدیث شریف میں بھی آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے پھوپھی کی نکاح میں موجودگی میں اس کی بھتیجی اور خالہ کی موجودگی میں اس کی بھانجی سے نکاح کرنے سے منع فرمایا ہے۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں زید کے لیے خالہ (ہندہ) کی موجودگی میں اس کی بھانجی (زینب) سے نکاح جائز نہ ہوگا۔ ہاں اگر زید نے کسی وجہ سے ہندہ کو طلاق دے دیا یا ہندہ کا انتقال ہوگیا تو پھر زید زینب سے نکاح کرسکتا ہے۔

عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُنْكَحَ الْمَرْأَةُ عَلَى عَمَّتِهَا أَوْ خَالَتِهَا۔ (صحیح البخاری، رقم : ۵۱۰۸)

«ولا يجمع بين امرأتين لو كانت إحداهما رجلا لم يجز له أن يتزوج بالأخرى»۔ (ہدایہ : ١/١٨٧)

«ولا يجمع بين المرأة وعمتها أو خالتها أو ابنة أخيها ولا على ابنة أختها» لقوله علیہ السلام«لا تنكح المرأة على عمتها ولا على خالتها ولا على ابنة أخيها أو ابنة أختها» وهذا مشهور تجوز الزيادة على الكتاب بمثله۔ (ہدایہ : ١/١٨٧)

فَلَا يَجُوزُ الْجَمْعُ بَيْنَ امْرَأَةٍ وَعَمَّتِهَا نَسَبًا أَوْ رَضَاعًا، وَخَالَتُهَا كَذَلِكَ وَنَحْوُهَا۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٢٧٧)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
08 جمادی الاول 1443

5 تبصرے:

بوگس ووٹ دینے کا حکم