سوال :
محترم مفتی صاحب! میت قبر میں اتارنے کے بعد سب سے پہلے میت اگر باپ کی ہو تو بڑے بیٹے کو، اگر ماں کی ہے تو باپ کو، بیوی کی ہے تو شوہر کو، اسی طرح گھر کے بڑے کو پکارا جاتا ہے کہ پہلے تم آ کر قبر پر مٹی ڈالو، بقیہ حضرات انتظار میں رہتے ہیں، تو کیا یہ عمل شرعاً ہے یا ہمارا ہی گھڑا ہوا ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : میت کو قبر میں رکھنے کے بعد حاضرین کے لیے تین تین مٹھی مٹی ڈالنا مسنون ومستحب ہے، لیکن شرعاً یہ متعین نہیں ہے کہ پہلے کون مٹی ڈالے گا؟ لہٰذا پہلے کوئی بھی مٹی ڈال سکتا ہے۔ سوال نامہ میں مذکور عمل اگر ضروری یا سنت سمجھ کر انجام نہ دیا جارہا ہوتو اس کی گنجائش ہے، اگر اسے ضروری یا سنت سمجھا جارہا ہوتو پھر یہ بدعت کہلائے گا جس کی اصلاح ضروری ہے۔
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ ، قَالَ : لَمَّا وُضِعَتْ أُمُّ كُلْثُومٍ ابْنَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْقَبْرِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ، وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ، وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى۔ (مسند احمد، رقم : ٢٢١٨٧)
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ۔ (صحیح مسلم، رقم : ١٧١٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
25 ربیع الآخر 1443
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں