سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام شرح مسئلہ ذیل کے بارے میں جیسا کہ آجکل سردی کا موسم چل رہا ہے ہماری مسجد میں اس مسئلہ پر آج بحث چل رہی ہے کہ نماز کے دوران چادر وغیرہ اوڑھ کر نماز پڑھتے ہیں کیا نماز کے دوران ہاتھوں کو چادر کے اندر باندھ سکتے ہیں یا نہیں؟ یا چادر سے باہر ہاتھوں کوباندھنا شرط ہے اگر ہاتھ چادر کے اندر باندھ لئے تو نماز میں کیا خامی ہوگی؟ ذرا وضاحت سے بیان فرما دیں۔
(المستفتی : محمد مصروف، ضلع سہارنپور)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نماز پڑھتے وقت چادر سے ہاتھ باہر نکالنا ضروری نہیں ہے، ہاتھ نکالے بغیر بھی نماز بلاشبہ درست ہوجاتی ہے۔ (مستفاد : فتاویٰ دارالعلوم قدیم ۴؍۱۰۴)
چادر اوڑھنے کی یہ صورت اشتمال صماء میں داخل نہیں، کیونکہ اشتمال صماء کی تعریف یہ ہے کہ سر سے پیر تک ایک ہی کپڑے میں لپیٹ لیا جائے جس میں آدمی بندھ کر رہ جاتا ہے، اور ستر کھلنے کا احتمال زیادہ ہوتا ہے، اور زیر بحث صورت میں جب کہ ہاتھ پیر اپنی حرکت میں آزاد رہتے ہیں، اور ستر کھلنے کا بھی کوئی اندیشہ نہیں ہوتا، تو شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں۔
البتہ نماز میں چادر اوڑھنے کی ایک اور شکل مکروہ ہے جسے سدل کہا جاتا ہے۔ سدل یہ ہے کہ کپڑا اپنے سر پر اور کندھے پر ڈال دے اور اسکے تمام کنارے کو نیچے لٹکتا چھوڑ دے۔ لیکن اگر چادر کو یا رومال کو ایک پیچ دے دیا جائے تو اب سدل نہیں رہے گا، اسکے مکروہ ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ یہود کا طریقہ ہے، اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اس طرح کپڑا لٹکا رہے تو نماز میں بار بار اسکو سمیٹنا پڑتا ہے جس سے خشوع خضوع میں فرق پڑے گا، اور ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ بار بار کپڑے کو سمیٹنا مکروہ ہے، اس لئے بھی سدل مکروہ ہے۔
کتاب المسائل میں ہے :
عرب اپنے جبے کے اندر سے رومال پہنتے ہیں، اور ہمارے یہاں رومال اوڑھنے والے ایک طرف رومال کو کندھے پر ڈال دیتے ہیں، لہٰذا یہ مکروہ نہیں ہے۔ نماز کی حالت میں چادر یا رومال سر یا دونوں کندھوں پر رکھ کر اس کے دونوں سرے ایک دوسری جانب لپیٹے بغیر دونوں جانب چھوڑ دینا مکروہ تحریمی ہے، اس کو ’سدل‘ کہا جاتا ہے، یہی حکم اس صورت میں بھی ہے، جب کہ کوٹ یا شیروانی کو آستینوں میں ہاتھ دیئے بغیر کندھے پر ڈال لیا جائے (خارجِ نماز یہ کیفیت مکروہ تنزیہی ہے)
درج بالا تفصیلات سے معلوم ہوا کہ نماز میں اگر چادر اوڑھنے کی کیفیت اشتمال صماء یا سدل نہ ہو تو ہاتھ چادر کے اندر بھی بندھے ہوں تو نماز بلاکراہت درست ہوجاتی ہے۔
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: نہی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم… أن یشتمل الصمَّاء، وأن یحتبي الرجل في ثوب واحد۔ (صحیح البخاري، الصلاۃ / باب ما یستر من العورۃ ۱؍۵۳ رقم: ۳۶۸)
نہی عن اللبسۃ الصماء وہي عند العرب تجلیل الجسد کلہ بثوب واحد بلا رفع جانب یخرج منہ الید، والنہي عنہ لأنہ یجعل اللابس کالمغلول وسمیت صماء؛ لأنہا سدت المنافذ کلہا کالصخرۃ الصماء التي لیس فیہا خرق ولا صدع۔ قال ابن الہمام: یکرہ اشتمال الصماء في الصلاۃ وہو أن یلف بثوب واحد وسائر جسدہ ولا یدع منفذ الیدین۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ۴؍۴۱۹ کتاب اللباس)
إخراج الرجل کفیہ من کمیہ عند التکبیر للإمام لقربۃ من التواضع إلا لضرورۃ کبرد۔ (مراقي الفلاح مع الطحطاوي ۱؍۲۳۴، درمختار مع الشامي، صفۃ الصلاۃ / آداب الصلاۃ ۲؍۱۷۶ زکریا، ۱؍۴۷۸ کراچی)
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم نَھٰی عَنِ السَّدْلِ فِی الصَّلَاۃِ وَاَنْ یُغَطِّیَ الرَّجُلُ فَاہُ۔ (ابوداؤد، باب ما جاء فی السدل فی الصلوة، ص ١٠١ نمبر ٦٤٣)
وکرہ الخ۔ سدل تحریماً للنہی ثوبہ أی إرسالہ بلا لبس معتاد، وکذا القباء بکم إلی وراء ذکرہ الحلبی کشد ومندیل یرسلہ من کتفیہ فلو من أحدہما لم یکرہ کحالۃ عذر وخارج صلوۃ في الأصح۔ (درمختار) قال الشامی: أی إذا لم یکن للتکبّر فالأصحّ أنہ لایکرہ، قال فی النہر أی تحریماً وإلاَّ فمقتضی ما مر أنہ یکرہ تنزیہاً۔ (شامی بیروت ۲؍۳۴۹، زکریا ۲؍۴۰۵، شرح وقایۃ ۱؍۱۶۷، بدائع الصنائع ۱؍۵۱۳، ہدایۃ ۱؍۱۴۱، کتاب المسائل، کتاب النوازل)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
02 ربیع الآخر 1443
آج کل جو عرب علماء اور امام حرم کپڑا سر پر ڈال کر نماز ادا کرتے ہیں جن کے سرے بھی آزاد ہوتے ہیں،تھوڑا کنفیوژن ہو رہا ہے برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں
جواب دیںحذف کریںArab jo roomal laga te hain uski kiya haisiyat hai
جواب دیںحذف کریں