نماز عشاء جلدی ادا کرنے کی ہوڑ
چند قباحتیں اور گذارشات
قارئین کرام ! شہر عزیز میں بہت سے اعمال خواہ وہ دنیاوی ہوں یا دینی ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی انجام دیئے جاتے ہیں، جہاں کسی تجارت میں زیادہ نفع معلوم ہوا یا کسی کام میں شہرت ہو ایک بڑی تعداد اس پر ٹوٹ پڑتی ہے، یہی معاملہ نمازوں بالخصوص نماز عشاء کے ساتھ بھی ہورہا ہے، چنانچہ اس مضمون میں ہم نماز عشاء انتہائی اول وقت میں پڑھنے کی چند قباحتیں اور گذارشات بیان کریں گے۔
محترم قارئین ! مشاہدہ ہے کہ جن مساجد میں نماز جلدی ہوتی ہے وہاں پر مصلیان کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے ایک بڑی تعداد نے نماز عشاء کو ہی تختہ مشق بنالیا اور گویا مقابلہ آرائی میں لگ گئے۔ جبکہ بعض مساجد میں ائمہ کو جلدی ہوتی ہے تو بعض جگہوں پر ذمہ داران کا دباؤ اور بعض جگہوں پر مصلیان کے اصرار پر عشاء کی نماز انتہائی اول وقت میں ادا کرنے کا رجحان بڑھتا ہی جارہا ہے۔ اور ہر سال سردی کے موسم میں ایسی مساجد میں اضافہ ہورہا ہے۔ جس کی وجہ سے مساجد میں چلنے والے مغرب بعد کے مکاتب خطرے میں پڑ رہے ہیں۔
شہر کے مرکزی علاقوں کی بڑی بڑی اور بالکل قریب قریب کی مساجد میں عشاء کی جماعت جلد از جلد رکھنے کی جیسے ہوڑ لگی ہوئی ہے۔ یعنی ایک نے کیا تو دوسرا اس سے زیادہ کم کرنے کی فکر میں ہوتا ہے۔ نماز فجر کی طرح نماز عشاء کا وقت پانچ پانچ منٹ کم زیادہ کیا جاتا ہے۔ یہ عمل نہ تو شرعاً پسندیدہ ہے اور نہ ہی شہر عزیز کی یہ روایت رہی ہے۔ آٹھ دس دن میں وقت تبدیل ہونے کی وجہ سے مصلیان کی تکبیر اولی اور رکعتیں فوت ہوتی ہیں، جس کا مشاہدہ آپ ایسی مساجد میں بآسانی کرسکتے ہیں، کیونکہ نماز عشاء میں بہرحال ایک طبقہ مصروفیات کی وجہ سے مستقل ایک مسجد میں نماز ادا نہیں کرسکتا، جبکہ فجر کا معاملہ الگ ہے اس میں عموماً ایک مسجد میں نماز ادا کرنے کا معمول ہوتا ہے جس کی وجہ وقت کی کمی بیشی کا علم ہوتا رہتا ہے۔
مساجد میں پنج وقتہ جماعت کے لیے اذان دینا سنت مؤکدہ ہے۔ اور یہ بھی ضروری ہے کہ یہ اذان وقت ہوجانے کے بعد ہو۔ لیکن جلد بازی کی ہوڑ میں اذان وقت سے تین تین منٹ پہلے بھی ہوئی ہے۔ اذان وقت سے پہلے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اذان ہوئی ہی نہیں۔ یعنی ایک تاکیدی سنت چھوٹ گئی۔ ان مساجد کے ائمہ اور ٹرسٹیان کو جب جانکار افراد کہتے ہیں کہ ایسا کرنا جائز نہیں ہے تو جواب دیا جاتا ہے کہ اتنا چل جاتا ہے۔ ان سے ہمارا سوال ہے کہ آپ کو کس نے بتایا ہے کہ اتنا چل جاتا ہے؟ جب تقویم بنی ہوئی ہے تو پھر اس میں وقت دیکھ کر اذان کیوں نہیں دی جارہی ہے؟ کیا آپ نے دین کو اتنا ہلکا سمجھ لیا ہے کہ جو سمجھ میں آئے گا کریں گے؟ جبکہ حدیث شریف میں مؤذن کو امانت دار کہہ کر اس کی ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ وقت ہونے پر اذان دے تاکہ لوگوں کی نماز روزے خراب نہ ہوں۔ ان کی ہوڑ دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ ان کا بس چلے تو دوسری تقویم ہی بنالیں جس میں عشاء کا وقت مغرب کے صرف ایک گھنٹے بعد ہی ہو۔
نماز عشاء میں فرض سے پہلے چار رکعت ادا کرنا سنت غیرمؤکدہ ہے۔ جو چھوٹ جائے تو اس پر کوئی گناہ تو نہیں ہے، لیکن ہمیشہ اس کے ترک کا معمول بنالینا بہرحال کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ عشاء کا وقت ہوتے ہی اذان دے دینا اور پانچ سات منٹ کے بعد جماعت کھڑی کردینے میں پہلے کی چار رکعت سنتوں کو گویا بالکل ختم کردیا گیا ہے۔ کیا اتنے قلیل وقت میں کوئی اطمینان کے ساتھ چار رکعت سنت ادا کرسکتا ہے؟ بلکہ اگر کوئی پڑھنا بھی چاہے تو نہیں پڑھ سکتا۔
معلوم ہونا چاہیے کہ عشاء کا وقت افق سے سفید روشنی کے غائب ہونے سے شروع ہوکرصبح صادق تک رہتا ہے جس میں تہائی رات تک تاخیر کرنا افضل ہے۔ لہٰذا وقت ہوتے ہی اذان دے دینا اور پانچ منٹ بعد جماعت کھڑی کردینا کہ سنت پڑھنے کا موقع تک نہ ملے کراہت سے خالی نہیں ہے۔ اور علاقے کی کسی ایک مسجد میں مصلیان کی رعایت میں اگر جلد نماز رکھنا ہی ہوتو وقت ہونے کے پانچ منٹ بعد اذان دی جائے اور کم از کم دس منٹ بعد جماعت کھڑی کی جائے، ایک محلے اور ایک علاقے کی متعدد مساجد میں عشاء کی نماز بالکل اول وقت میں رکھنا شریعت کے مزاج خلاف ہے، لہٰذا ائمہ مساجد وذمہ داران کو اس کا خیال رکھنا چاہیے۔ نیز مصلیان کو بھی اس کا خیال رکھنا چاہیے کہ بلا کسی عذر انتہائی اول میں عشاء ادا کرنے کا معمول بنالینا کوئی بہتر عمل نہیں ہے۔
اللہ تعالٰی ہم سب کو دین پر کماحقہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، ہوائے نفس سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین ثم آمین
جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء مفتی صاحب
جواب دیںحذف کریںجزاکم اللہ
جواب دیںحذف کریںSahi hadees se Isha ki namaz jald ada karna hai ya taaqeer se
جواب دیںحذف کریںتاخیر سے
حذف کریںبہت اچھے مفتی صاحب ۔۔بہت صحیح بات ہے
جواب دیںحذف کریںدھولیہ میں بھی یہی حال ہے مفتی صاحب
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ محترم...
جواب دیںحذف کریںبروقت رہنمائی....
الھم زد فزد
جواب دیںحذف کریںآمین یا رب العالمین
جواب دیںحذف کریںجزاکم اللہ خیرا کثیراً کثیرا
کچھ احباب نصف شب گذرنے کے بعد عشاء کی نماز ادا کرتے ہیں. اس ضمن میں شریعت کا حکم کیا ہے؟
جواب دیںحذف کریںبالکل حق اور سچ باتیں لکھی گئی ہیں ائمہ کو چاہیے کہ اس بات کو سمجھ کر وقت جو چل رہا ہے اس کے مطابق چلے
جواب دیںحذف کریںالسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
حذف کریںمفتی صاحب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عشاء کی نماز بوجھ بن گئی ہے جلدی سے پڑھ کر بوجھ کو اتار دیا جائے
Bahut achche mufi sahab bahut khushi hui aap ka jawab padh kar allah aap ko aur zyada taraqqi ata farmay
جواب دیںحذف کریں