سوال :
گیارہویں کی نیاز کی کیا حقیقت ہے؟ گیارہویں کی نیاز کا کھانا مالدار اور غریب کیلئے کھانا کیسا ہے؟ دونوں کیلئے ایک ہی حکم ہے یا الگ الگ حکم ہے؟ ہر سوال کا مفصل جواب دیکر عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : مولوی جاوید، کوپرگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نیاز دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک نیاز تو وہ ہے کہ کھانا وغیرہ بناکر لوگوں کو کھلایا جائے اور یہ نیاز کسی بزرگ کے نام کی ہو، یعنی اس سے ان بزرگ کا تقرب مقصود ہو تو یہ حرام ہے، جس کا کھانا مالدار اور غریب سب کے لیے ناجائز اور حرام ہے۔ کیونکہ یہ نذر لغیر اللہ ہے۔ اب اگر یہ ماہ ربیع الآخر کی گیارہ تاریخ کے بعد ہو اور حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے نام پر اور ان کا قُرب حاصل کرنے کے لیے ہوتو اسے گیارہویں کی نیاز کہا جاتا ہے جس کا کھانا ہر کسی کے لیے جائز نہیں ہے۔
البتہ اگر یہ نیاز اللہ کی رضا کے لیے ہو، صرف اس کا ثواب بزرگوں کو پہنچایا جائے تو شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اس کا کھانا مالدار اور غریب سب کے لیے جائز ہے کیونکہ اس میں صدقہ واجبہ کا استعمال نہیں ہوتا، بلکہ نفلی صدقہ لگایا جاتا ہے۔ لیکن اس کے لیے دن اور مہینے کو مقرر کرلینا جیسے گیارہویں کی نیاز کا معاملہ ہے کہ ربیع الآخر کے مہینے میں ہی اسے انجام دیا جاتا ہے۔ جبکہ میت کے لیے ایصالِ ثواب کسی بھی وقت اور کہیں سے بھی کیا جاسکتا ہے، اس کے لیے کسی دن یا وقت کو مقرر کرنا نہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور نہ حضراتِ صحابہ، تابعین تبع تابعین اور ائمہٴ مجتہدین سے۔ یہ دین میں ایک نئی چیز ہے جسے بعد کے لوگوں نے ایجاد کیا ہے جو بدعت اور گمراہی ہے۔ چنانچہ اس ممنوع رسم میں شرکت کرنا بدعت کی حوصلہ افزائی کہلائے گی۔ لہٰذا اس میں شرکت کرنا بھی جائز نہیں ہے۔
خلاصہ یہ کہ ہمارے یہاں جسے گیارہویں کی نیاز کہا جاتا ہے وہ عموماً ایصالِ ثواب کے لیے ہوتی ہے، اس لیے اس کا کھانا حرام تو نہیں ہے۔ البتہ مہینے اور دن کی قید کی وجہ سے یہ عمل بدعت شمار ہوتا ہے، جس میں شریک ہونے کی وجہ سے ایک ناجائز عمل کو تقویت ملے گی، لہٰذا غریب اور مالدار سب کو اس میں شرکت سے احتراز کرنا چاہیے۔ خواہ معاملہ قریبی رشتہ دار کا ہی کیوں نہ ہو۔
وَالنَّذْرُ لِلْمَخْلُوقِ لَا يَجُوزُ؛ لِأَنَّهُ عِبَادَةٌ وَالْعِبَادَةُ لَا تَكُونُ لِلْمَخْلُوقِ وَمِنْهَا أَنَّ الْمَنْذُورَ لَهُ مَيِّتٌ وَالْمَيِّتُ لَا يَمْلِكُ وَمِنْهَا إنْ ظَنَّ أَنَّ الْمَيِّتَ يَتَصَرَّفُ فِي الْأُمُورِ دُونَ اللَّهِ تَعَالَى وَاعْتِقَادُهُ ذَلِكَ كُفْرٌ۔ (البحر الرائق : ۲/٣٢١)
وَلِأَنَّ ذِكْرَ اللَّهِ تَعَالَى إذَا قُصِدَ بِهِ التَّخْصِيصُ بِوَقْتٍ دُونَ وَقْتٍ أَوْ بِشَيْءٍ دُونَ شَيْءٍ لَمْ يَكُنْ مَشْرُوعًا حَيْثُ لَمْ يَرِدْ الشَّرْعُ بِهِ؛ لِأَنَّهُ خِلَافُ الْمَشْرُوعِ۔ (البحر الرائق : ٢/١٧٢)
وَيُكْرَهُ اتِّخَاذُ الضِّيَافَةِ مِنْ الطَّعَامِ مِنْ أَهْلِ الْمَيِّتِ لِأَنَّهُ شُرِعَ فِي السُّرُورِ لَا فِي الشُّرُورِ، وَهِيَ بِدْعَةٌ مُسْتَقْبَحَةٌ: وَرَوَى الْإِمَامُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَهْ بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ " كُنَّا نَعُدُّ الِاجْتِمَاعَ إلَى أَهْلِ الْمَيِّتِ وَصُنْعَهُمْ الطَّعَامَ مِنْ النِّيَاحَةِ ". اهـ. وَفِي الْبَزَّازِيَّةِ: وَيُكْرَهُ اتِّخَاذُ الطَّعَامِ فِي الْيَوْمِ الْأَوَّلِ وَالثَّالِثِ وَبَعْدَ الْأُسْبُوعِ وَنَقْلُ الطَّعَامِ إلَى الْقَبْرِ فِي الْمَوَاسِمِ، وَاِتِّخَاذُ الدَّعْوَةِ لِقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ وَجَمْعُ الصُّلَحَاءِ وَالْقُرَّاءِ لِلْخَتْمِ أَوْ لِقِرَاءَةِ سُورَةِ الْأَنْعَامِ أَوْ الْإِخْلَاصِ. وَالْحَاصِلُ أَنَّ اتِّخَاذَ الطَّعَامِ عِنْدَ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ لِأَجْلِ الْأَكْلِ يُكْرَهُ. وَفِيهَا مِنْ كِتَابِ الِاسْتِحْسَانِ: وَإِنْ اتَّخَذَ طَعَامًا لِلْفُقَرَاءِ كَانَ حَسَنًا اهـ وَأَطَالَ فِي ذَلِكَ فِي الْمِعْرَاجِ. وَقَالَ: وَهَذِهِ الْأَفْعَالُ كُلُّهَا لِلسُّمْعَةِ وَالرِّيَاءِ فَيُحْتَرَزُ عَنْهَا لِأَنَّهُمْ لَا يُرِيدُونَ بِهَا وَجْهَ اللَّهِ تَعَالَى۔ (شامی : ٢/٢٤١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 ربیع الآخر 1443
جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء مفتی صاحب
جواب دیںحذف کریںجی آپ نے همرا شخ دور کردیا
جواب دیںحذف کریںBHut shukriya
حذف کریںماشاء اللہ بہترین
جواب دیںحذف کریںبہت خوب لکھا جناب عالی آپ نے
جواب دیںحذف کریں💐
جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء مفتی صاحب
جواب دیںحذف کریںJazakallah
جواب دیںحذف کریںJazakAllah
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ
جواب دیںحذف کریںاللہ تعالیٰ آپکے علم میں ، عمر میں اور مال میں برکت عطا فرمائے
الحَمْدُ ِلله ماشاءاللہ جزاك اللهُ
جواب دیںحذف کریںالســـــلام عليكم ورحمةالله وبرکاتہ ماشاءاللہ اللھم زد فزد جزاکم اللّہ خیرالجزاء
جواب دیںحذف کریںجزاکم اللہ خیرا کثیرا حضرت مفتی صاحب، اللہ پاک آپ کی اس کاوش کو ذخیرہ آخرت بنائے۔ آمین
جواب دیںحذف کریںجزاک اللّہ .... اللّٰہ پاک تمام لوگوں کو دین کی صحیح سمجھ عطاء فرمائے ۔۔ اور اس بدعت سے دوری اختیار فرمایے۔ آمین
جواب دیںحذف کریںبہت بہتر
جواب دیںحذف کریںاللہ اپ کے علم میں برکت و استقامت عطا فرماے ما شاء اللہ
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیرا
جواب دیںحذف کریںدیوالی کی پوجا کا کھانا کیسا ہے؟
جواب دیںحذف کریں