سوال :
مفتی صاحب ایک مسئلہ درپیش ہے۔ درخواست ہےکہ جواب عنایت فرمائیں۔ ہماری جماعت نے اپنے شہر ناگپور سے 60 کلومیٹر کے فاصلے پر 25 دنوں تک کام کیا اور اس دوران ہم نے یہاں سے سفر کی نیت نہیں کی تھی۔ اب ہمیں اس مقام سے 10 دنوں کے لیے مزید 40/50 کلومیٹر کے فاصلے پر بھیجا گیا ہے۔ (جس کی ناگپور سے مسافت 90 کلومیٹر سے زیادہ ہے) اب ہم یہاں نماز قصر ادا کریں یا اتمام کریں؟ در اصل ہم اپنے شہر ناگپور سے جب نکلے تو 60 کلومیٹر کی ہی نیت سے نکلے تھے۔ پھر 22 دن ٹھہر کر نیا سفر طے ہوا۔ اب اپنے شہر سے مجموعی مسافت دیکھی جائے گی یا اس مقام سے جہاں 22 دن ہمارا قیام تھا؟
(المستفتی : مولوی عبداللہ، ناگپور)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سفر کرنے والا اس وقت تک مسافر شرعی نہیں ہوتا جب تک کہ وہ شرعی مسافت یعنی بیاسی کلومیٹر سفر کا ارادہ نہ کرلے۔ مثلاً اگر کوئی اپنے مقام سے پچاس کلومیٹر سفر کے ارادہ سے نکلا پھر وہاں سے اس نے مزید پچاس کلومیٹر چلنے کا ارادہ کرلیا تو وہ مسافر شرعی نہیں ہوگا، یعنی وہ نمازوں میں قصر نہیں کرے گا بلکہ پوری نماز پڑھے گا۔ خواہ وہ بیاسی کلومیٹر سے کم کا ارادہ کرتے ہوئے پوری دنیا کا چکر کیوں نہ لگالے وہ مسافر نہیں بنے گا۔
اس ضابطہ کی روشنی میں صورت مسئولہ کا جواب یہ ہے کہ آپ کی جماعت نے اپنے مقام سے نکلتے وقت ساٹھ کلومیٹر کا ہی ارادہ کیا تھا جس کی وجہ سے آپ حضرات مسافر نہیں ہوئے پھر اس مقام پر کچھ دن ٹھہرنے کے بعد مزید چالیس پچاس کلومیٹر کا سفر کرنا طے ہوا ہے تب بھی آپ حضرات شرعی مسافر نہیں ہوں گے، کیونکہ یہاں سے بھی شرعی مسافت کے بقدر سفر کرنے کا ارادہ نہیں ہوا ہے۔ لہٰذا نمازیں مکمل ادا کریں گے۔ البتہ یہاں سے گھر لوٹتے وقت آپ حضرات قصر کریں گے کیونکہ واپسی کے وقت مسافت سفر پوری ہے۔
حَدَّثَنا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنِ الشَّيْبانِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ خُلَيْدَةَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قالَ : يَقْصُرُ الصَّلاةَ فِي مَسِيرَةِ ثَلاثَةِ أمْيالٍ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم : ٨١٢٠)
حَدَّثَنا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ يَحْيى بْنِ يَزِيدَ الهُنائِيِّ، قالَ: سَألْتُ أنَسَ بْنَ مالِكٍ عَنْ قَصْرِ الصَّلاةِ، فَقالَ : كانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إذا خَرَجَ مَسِيرَةَ ثَلاثَةِ أمْيالٍ، أوْ ثَلاثَةِ فَراسِخَ شُعْبَةُ الشّاكُّ، صَلّى رَكْعَتَيْنِ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم : ٨١٢٣)
(قَوْلُهُ قَاصِدًا) أَشَارَ بِهِ مَعَ قَوْلِهِ خَرَجَ إلَى أَنَّهُ لَوْ خَرَجَ وَلَمْ يَقْصِدْ أَوْ قَصَدَ وَلَمْ يَخْرُجْ لَا يَكُونُ مُسَافِرًا ۔۔۔ (قَوْلُهُ بِلَا قَصْدٍ) بِأَنْ قَصَدَ بَلْدَةً بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا يَوْمَانِ لِلْإِقَامَةِ بِهَا فَلَمَّا بَلَغَهَا بَدَا لَهُ أَنْ يَذْهَبَ إلَى بَلْدَةٍ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا يَوْمَانِ وَهَلُمَّ جَرًّا. ح. قَالَ فِي الْبَحْرِ: وَعَلَى هَذَا قَالُوا أَمِيرٌ خَرَجَ مَعَ جَيْشِهِ فِي طَلَبِ الْعَدُوِّ وَلَمْ يَعْلَمْ أَيْنَ يُدْرِكُهُمْ فَإِنَّهُ يُتِمُّ وَإِنْ طَالَتْ الْمُدَّةُ أَوْ الْمُكْثُ؛ أَمَّا فِي الرُّجُوعِ فَإِنْ كَانَتْ مُدَّةَ سَفَرٍ قَصَرَ۔ (شامی : ٢/١٢٢)
وَلَا يَصِيرُ مُسَافِرًا بِالنِّيَّةِ حَتَّى يَخْرُجَ وَيَصِيرُ مُقِيمًا بِمُجَرَّدِ النِّيَّةِ، كَذَا فِي مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/١٣٩)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 ربیع الآخر 1443
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ، محترم مفتی صاحب،
اللہ تعالیٰ آپ کے علم میں مزید اضافہ کریں۔
آپکو دونوں جہان کی کامیابی و کامرانی عطا فرمائے۔
اور ہمیں آپکے علم سے استفادہ حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین یارب العالمین۔