سوال :
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مفتیان شرع متین اس حدیث کے متعلق کہ ایک مرتبہ حضرت جبرئیل علیہ السلام حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ (اللہ تعالیٰ کے نزدیک آپ کا مقام افضل ہے یا میرا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میرا۔ اس لئے کہ تم میرے پاس وحی لیکر آتے ہو۔ پھر عرض کیا اللہ تعالیٰ کے نزدیک آپ افضل ہیں یا عرش؟
فرمایا : میں۔ اس لئے کہ میں عرش پر جاچکا ہوں، پھر عرض کیا اللہ کے نزدیک آپ افضل ہیں یا قرآن مجید؟ فرمایا : میں۔ اس لئے کہ قرآن مجھ پر نازل ہوا۔ پھر عرض کیا اللہ تعالیٰ کے نزدیک آپ افضل ہیں یا اللہ کا دین؟ فرمایا : اللہ تعالیٰ کا دین۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تکلیف میں مبتلا کرنا گوارا کیا لیکن دین مٹنا گوارا نہیں کیا۔
(المستفتی : مسیّب خان ملی رشید خان، جنتور)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں جس مکالمہ کا ذکر ہے ایسی کوئی بھی حدیث نہیں ہے۔ لہٰذا ایسے بے فائدہ مکالمہ کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت جبریل علیہ السلام کی طرف کرنا اور اس کا بیان کرنا جائز نہیں ہے۔ اور اس مکالمہ کا آخری سوال تو بے بنیاد ہونے کے ساتھ ساتھ جاہلانہ بھی ہے۔ چنانچہ اسی نوعیت کے ایک سوال کے جواب میں مفتی سلمان منصور پوری دامت برکاتہم لکھتے ہیں :
سرور عالم حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات گرامی اور دین محمدی دونوں لازم ملزوم ہیں، نہ تو حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا تصور بغیر دین اسلام کے ممکن ہے، اور نہ ہی دین اسلام کا تصور بغیر حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے متصور ہے، بریں بنا یہ سوال ہی مہمل ہے کہ عنداﷲ اسلام محبوب ہے یا حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات عالی؟ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو دونوں محبوب وپسندیدہ ہیں۔
اور سوال میں جو جملہ منقول ہے کہ : ’’اللہ نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس دین کی خاطر پٹتے ہوئے دیکھا، مگر دین مٹتے نہیں دیکھا‘‘، یہ تعبیر نہایت جاہلانہ ہے؛ کیونکہ انبیاء علیہم السلام کو جو بھی تکلیفیں پہنچیں، وہ ان کے لئے رفع درجات کا سبب ہیں؛ لہٰذا ایسی تعبیرات سے ہر مسلمان کو احتراز کرنا لازم ہے۔ (کتاب النوازل : ١/١٦٨)
قال اللہ تعالیٰ : اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ۔ (آل عمران : ۱۹)
أخرج الترمذي حدیثاً طویلا، قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ألا وأنا حبیب اللّٰہ ولا فخر … وأنا أکرم الأولین والآخرین ولا فخر۔ (سنن الترمذي / أبواب المناقب ۲؍۲۰۲)
والمعتقد المعتمد أن أفضل الخلق نبینا حبیب الحق، وقد ادعی بعضہم الإجماع علی ذٰلک، فقد قال ابن عباس رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہما: إن اللّٰہ فضّل محمداً علی أہل السماء وعلی الأنبیاء۔ (شرح الفقہ الأکبر ۱۱۴)
وأفضل الأنبیاء محمد صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم لقولہ تعالیٰ: {کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ۔ الآیۃ} وعندنا في الاستدلال وجہان :
أحدہما : الإجماع، فہو قول لم یعرف لہ مخالف من أہل السنۃ بل من أہل القبلۃ کلہم۔
ثانیہما : الأحادیث المتظاہرۃ لقولہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم: ’’إن اللّٰہ فضّلني علی الأنبیاء، وفضّل أمتي علی الأمم‘‘۔ (سنن الترمذي) وقولہ: ’’أنا سید الناس یوم القیامۃ‘‘۔ (صحیح مسلم) وقولہ : ’’أنا أکرم الأولین والآخرین علی اللّٰہ ولا فخر‘‘۔ (سنن الترمذي والدارمي) وقولہ : ’’إذا کان یوم القیامۃ کنت إمام النبیین وخطیبہم وصاحب شفاعتہم غیر فخر‘‘۔ (سنن الترمذي) وأمثالہا کثیرۃ۔ (النبراس، شرح شرحِ العقائد النسفیۃ ۲۸۶ ملتان، بحوالہ: فتاویٰ محمودیہ ڈابھیل ۱؍۳۸۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
09 ربیع الاول 1443
جزاک اللہ خیرا
جواب دیںحذف کریںمفتی صاحب آج دل کا ایک بوجھ کم ہوگیا جب سے اس بندے کی زبانی یہ سنا تب سے دل پر ایک طرح کا بوجھ محسوس کررہا تھا
جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء
جواب دیںحذف کریںاللھم زذ فزد
حذف کریںالحمدللہ بہت ڈھونڈنے کے بعد میرے سوال کا جواب ملا
جواب دیںحذف کریں