قارئین کرام ! گذشتہ دس دنوں سے یوٹیوب اور سوشل میڈیا پر حضرت مولانا مفتی طارق مسعود صاحب دامت برکاتہم اور انجینئر محمد علی مرزا سے متعلق کافی مواد گردش میں ہے۔ کیونکہ مرزا جہلمی کے چیلنج کے مطابق مفتی طارق مسعود صاحب جہلم پہنچ گئے تھے اور آپ نے مرزا کو ملاقات کے لیے یا کم از کم ملاقات کا وقت طے کرنے کے لیے دو دن کا وقت دیا تھا، لیکن ان دو دنوں میں مرزا کی طرف سے مکمل طور پر خاموشی رہی۔ جس کی وجہ سے بہت سے لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ مفتی طارق مسعود صاحب کے جہلم چلے جانے اور وہاں سے فاتحانہ لوٹنے پر اب انجینئری فتنہ بالکل سرد ہوجائے گا۔ اور انجینئر کسی کو منہ دکھانے لائق نہیں رہے گا، جبکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ مفتی صاحب کا جہلم جانا بلاشبہ ایک بہت بڑا کام ہے، جس سے انجینئر کی حیثیت بہت حد تک کھل کر سامنے آگئی ہے کہ مفتی طارق مسعود صاحب تو بہت دور ہیں وہ کسی بھی جید عالم کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے کے لائق نہیں ہے، (بلکہ ایسا کئی مرتبہ ہوا کہ کئی علماء اس سے ملاقات کے لیے اس اکیڈمی پر جا چکے ہیں، لیکن یہ اس وقت ملتا ہی نہیں ہے۔) لیکن چونکہ یہ بے غیرت ہے اور اس کا مشن ہی دوسروں کو گمراہ کرنا ہے تو یہ خاموش کیونکر بیٹھے گا؟ یہی وجہ ہے کہ یہ اپنی بکواس اور بدتمیزیوں کے ساتھ دوبارہ آچکا ہے۔
مرزا جہلمی گویا کھلا ہوا ایک سانڈ ہے جس کے سینگ جس طرف سماتے ہیں ادھر بھاگ نکلتا ہے، یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم باالخصوص خال المؤمنين حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا گستاخ ہے۔ بلکہ اس کا محبوب مشغلہ ہی مشاجرات اور اختلاف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بیان کرنا ہے، اور اس میں کھل کر کسی کو حق اور کسی کو باطل ٹھہرانا ہے۔ یہ سلف صالحین اور اولیاء کرام کی بھی توہین کرتا ہے۔ اور ہر مسلک کے اکابر علماء کرام کو برا بھلا کہتا ہے۔ اس کا لہجہ بھی انتہائی نخوت بھرا اور متکبرانہ ہوتا ہے جس سے صاف واضح ہے کہ یہ خالی برتن ہے جو زیادہ بج رہا ہے۔
ہمارے علم کے مطابق یہ شخص یعنی انجینئر مرزا علی فکری انحراف کا شکار ہے، اس لیے اس کے بیانات سننے سے احتراز کیا جائے، کسی مسئلے سے متعلق حکم شرعی معلوم کرنا ہو یا کسی مسئلے پر کوئی اشکال ہو تو مستند علماء سے رابطہ کرکے حکم شرعی یا اشکال کا جواب معلوم کرلیا جائے، یہی اسلم طریقہ ہے۔ (رقم الفتوی : 163108)
انجینئر کی باتوں سے گمان ہوگا کہ چودہ سو سال میں اکیلا یہی ایک بندہ ہے جس نے دین کو صحیح سمجھا ہے، بقیہ سب نے دین کو سمجھنے میں کہیں نہ کہیں چھوٹی یا بڑی غلطی کی ہے۔ یہ نہ تو شیعہ ہے اور نہ سنی، نہ مقلد ہے اور نہ ہی غیرمقلد۔ بلکہ یہ چوں چوں کا مربہ ہے جس نے دین کو اپنی ناقص بلکہ تیڑھی عقل اور اردو تراجم کے ذریعے سمجھا ہے۔ یہ عربی زبان کے قواعد سے ناواقف ہے، بلکہ یہ تو قرآن مجید بھی روانی سے نہیں پڑھ سکتا ہے تو پھر احادیث اور عربی تفاسير اور کتب فقہ کی عبارات کو پڑھنا اور اسے سمجھنا تو بہت دور کی بات ہے۔ یہ پہلے بریلوی تھا پھر اپنا مسلک تبدیل کرتا ہوا یہاں تک پہنچا ہے۔ یعنی یہ اب تک انڈر پروسیس ہے۔ کچھ بعید نہیں ہے کہ کل کو معاذ اللہ یہ قادیانی ہوجائے۔ مرزا جہلمی پر یہ شعر بھی صادق آتا ہے کہ :
ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا
بعض لوگ اس کے چینل کے سبسکرائبرس اور وویوز سے متاثر ہیں تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم نے خود اس کی ویڈیوز پر کمنٹس کا جائزہ لیا ہے، اکثر کمنٹس اس کی مخالفت میں ہوتے ہیں، اور یہی حال اس کے سبسکرائبرس کا بھی ہوگا کہ انہوں اس کو فالو کرنے کے بجائے اس کا تماشہ دیکھنے کے لیے اس کے چینل کو سبسکرائب کیا ہوگا، اور یہاں پر یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ کوئی آدمی کتنے ہی باطل اور بے بنیاد عقائد کا حامل کیوں نہ ہو، کچھ نہ کچھ لوگ اس کے حامی اور ماننے والے ضرور بن جاتے ہیں، مرزا غلام قادیانی ملعون کی ہی مثال لے لیں کہ اس کا عقیدہ بالکل باطل، یہاں تک کہ اس کا چہرہ تک دیکھنے لائق نہیں تھا، لیکن اس کے باوجود کچھ لوگ اب تک اس کے ماننے والے موجود ہیں، اسی طرح مرزا جہلمی کا معاملہ بھی سمجھ لیں کہ اس کی جہالت اور گمراہی اظہر من الشمس ہوجانے کے بعد بھی کچھ نہ کچھ لوگ اس کے ماننے والے ضرور ہوں گے، لہٰذا اس سے دلبرداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ موجودہ دور انتہائی سخت فتنوں کا دور ہے، اور ان فتنوں کے پھیلنے کا سب سے بڑا ذریعہ عوام الناس کی علماء کرام سے دوری ہے، ان فتنوں کے سدِباب کے لئے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ عوام علماء سے اپنا رابطہ مضبوط کریں، اور جو شخص مطلقاً تمام علماء کرام کو برا بھلا کہے اس سے بھی دور رہیں، کیونکہ اس طرح کے فتینوں کا سب سے پہلا حربہ یہی ہوتا ہے کہ یہ سادہ لوح عوام کو علماء سے بدظن کرتے ہیں، جب یہ علماء سے بدظن ہوجاتے ہیں تو یہ اپنے عقائد کی دعوت دینا شروع کردیتے ہیں، اور عوام چونکہ علماء سے پہلے ہی بدظن و بدگمان ہوچکے ہوتے ہیں اس وجہ سے ان کے پاس ان مسائل کی تشفی کے لئے جاتے ہی نہیں ہیں، اورنتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے بدبختوں کے ہاتھوں اپنا قیمتی ایمان لُٹا بیٹھتے ہیں۔
حدیث شریف میں ایسے ہی ادوار سے متعلق پیشین گوئی فرمائی گئی ہے :
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ان فتنوں کے ظاہر ہونے سے پہلے جلد جلد نیک اعمال کرلو جو اندھیری رات کی طرح چھا جائیں گے صبح آدمی ایمان والا ہوگا اور شام کو کافر یا شام کو ایمان والا ہوگا اور صبح کافر اور دنیوی نفع کی خاطر اپنا دین بیچ ڈالے گا۔ (صحیح مسلم)
آدمی صبح کو ایمان کی حالت میں اٹھے گا الخ کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے عقائد ونظریات اقوال واحوال اور طور طریقوں میں ساعت بساعت تبدیلی ہوتی رہے گی، کبھی کسی نظریہ وعقیدہ کے حامل ہوں گے، کبھی کسی کے ایک وقت میں کوئی عہد و پیمان کریں گے اور دوسرے وقت میں اس سے منحرف ہو جائیں گے، کبھی دیانت و امانت پر چلنے لگیں گے اور کبھی بد دیانتی وخیانت پر اتر آئیں گے کبھی سنت پر عمل کرتے نظر آئیں گے اور کبھی بدعت کی راہ پر چلتے دکھائی دیں گے، کسی وقت ایمان ویقین کی دولت سے مالا مال ہوں گے اور کسی وقت تشکیک و اوہام اور کفر کے اندھیروں میں بھٹکنے لگیں گے، غرض یہ کہ ہر ساعت اور ہر لمحہ تبدیلی پیدا ہوتی نظر آئے گی اور اس امر کا یقین کرنا دشوار ہوگا کہ کسی شخص کی اصل کیفیت وحالت کیا ہے۔ چنانچہ ایسی صورت میں لوگوں کو صحیح راستہ دکھانے کا کام علماء ربانیین کا ہی ہوگا۔ چنانچہ ایک دوسری حدیث شریف میں آتا ہے :
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا زمین میں علماء کی مثال ایسی ہے جیسے آسمان میں ستارے کہ جن کے ذریعے بر و بحر کی تاریکیوں میں راستہ کی رہنمائی حاصل کی جاتی ہے، اگر ستارے بے نور ہوجائیں تو راستے پر چلنے والے بھٹک جائیں۔ (مسند احمد)
مذکورہ حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ فتنوں کی تاریکی میں یہی علماء ربانیین ستاروں کا کام کریں گے، اور لوگوں کی صحیح رہنمائی فرمائیں گے۔ لہٰذا علماء کرام سے جڑے رہیں اور انہیں سے دین سیکھیں، انٹرنیٹ پر غیرعلماء کی دینی تقریریں اور تحریریں پڑھنے سے مکمل طور پر اجتناب کریں، جس طرح ایک آدمی بیمار ہونے پر ڈاکٹر کے پاس جانے کے بجائے انجینئر کے پاس نہیں جاتا، بلکہ انجان ڈاکٹر کے پاس بھی نہیں جاتا جب تک کہ اس کے بارے میں اپنے کسی معتبر اور بھروسہ مند ڈاکٹر یا کسی تجربہ کار آدمی سے معلومات حاصل نہ کرلے۔ تو پھر دینی معاملات میں کسی غیرعالم کی طرف کیوں رجوع کیا جا رہا ہے؟ دین کو ایسا مسکین اور ہلکا آخر کیوں سمجھ لیا گیا ہے کہ ہر کوئی ایرا غیرا اس میں رائے زنی کررہا ہے؟ چنانچہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم اس پر غور کریں اور بقدر استطاعت اس طرح کے فتنوں کے سدباب کی کوشش کریں۔ نیز کالج کے طلبہ سے بھی التجا ہے کہ وہ اپنی پڑھائی کے زمانے میں اس طرح کی اختلافی بحثوں میں پڑ کر یوٹیوب گردی بالکل نہ کریں، بلکہ اپنی پڑھائی پر زیادہ توجہ دیں کہ ابھی اصل کام آپ حضرات کا یہی ہے۔ اگر بوقت فرصت کچھ سننا ہوتو غیر اختلافی اور اعمال پر ابھارنے والے بیانات کو سنا کریں۔
اخیر میں درخواست ہے کہ مرزا جہلمی کے فتنہ کو کچھ حد تک ختم کرنے کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ اس کی ویڈیوز کو باقاعدہ غیرمحسوس طریقہ پر مہم چلاکر ڈس لائک کیا جائے اور اس کے چینل کو اَن سبسکرائب اور رپورٹ کیا جائے۔
اللہ تعالٰی ہم سب کے اعمال، ایمان اور عقائد کی حفاظت فرمائے، اس فتنہ کے مکمل طور پر ختم ہونے کے فیصلے فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
بہترین مضمون. اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے آمین
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیراً کثیرا
جواب دیںحذف کریںبروقت برموقع ،ماشاءاللہ
ماشاءاللہ
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ بہت خوب
جواب دیںحذف کریںچوں چوں کا مربہ
جواب دیںحذف کریںاچھا تبصرہ ہے مفتی صاحب!
💐💐💐
بہت خوب
بہترین مضمون، ماشاءاللہ، اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین
جواب دیںحذف کریںخاندانی کام کیا ہے مفتی طارق مسعود صاحب نے
جواب دیںحذف کریںہٹو بچو
ماشاءاللہ کیا کہنے مفتی عامر صاحب کے زبردست تبصرہ
جواب دیںحذف کریںMufti sahab aap ko allah khush rakhe
حذف کریںماشإاللہ عمدہ تحریر ہے اللہ تعالی آپ کے علم عمل میں خوب برکتیں عطا فرماۓ
جواب دیںحذف کریںماشاءاللہ ہمیشہ کی طرح یہ مضمون بھی بہت عمدہ رہا ۔جزاک اللہ خیر
جواب دیںحذف کریںہٹو بچو
جواب دیںحذف کریںشاندار جاندار قلعی کھول تبصرہ
جواب دیںحذف کریں