سوال :
مفتی صاحب! عام طور پر خواتین کا نظریہ بنا ہوا ہے کہ دوران حمل سورۃ یوسف اور سورۃ مریم پڑھنے سے بچے خوبصورت پیدا ہوتے ہیں، اسی لیے وہ مکمل قرآن کی تلاوت کی بجائے ان سورتوں کو پڑھنے کو اولیت دیتی ہیں۔ کیا ایسا کرنا درست ہوگا؟ اور کیا ان سورتوں کے یہ فضائل قرآن و حدیث سے ثابت ہیں؟
(المستفتی : انصاری مسعود احمد، مالیگاؤں)
--------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : حمل کے دوران سورہ مریم اور سورہ یوسف پڑھنے کا کوئی حکم قرآن و حدیث میں نہیں ہے۔ اور نہ ہی اس وقت ان سورتوں کے پڑھنے کی کوئی فضیلت قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔
معلوم ہوا کہ یہ عمل شرعاً فرض، واجب، مسنون، یا مستحب نہیں ہے، بلکہ مجربات کی قبیل سے ہے، کسی نے تجربہ کیا ہوگا انہیں اس کا مذکورہ بالا فائدہ نظر آیا تو اسے لکھ دیا، یعنی اس کا فائدہ ہو سکتا ہے اور نہیں بھی ہوسکتا۔ لہٰذا اس مجرب عمل کو اگر سنت اور ضروری سمجھ کر نہ کیا جائے تو اس پر عمل کی گنجائش ہے۔
البتہ یہ بات بھی درست نہیں ہے کہ اب حالت حمل میں جب بھی قرآن پڑھا جائے تو بس ان دو سورتوں کو ہی پڑھا جائے، بقیہ قرآن پڑھا ہی نہ جائے، بلکہ مکمل قرآن کریم بھی بالترتيب پڑھا جائے کہ یہی اصل اور زیادہ بابرکت عمل ہے۔
حمل کی حالت عورت کے لیے مصیبت اور تکلیف کی ہوتی ہے، لہٰذا مصیبت اور تکلیف کے وقت کی جو دعائیں احادیث میں وارد ہوئی ہیں انہیں اس حالت میں پڑھنا بھی مفید ہوگا، ان میں سے چند دعائیں درج ذیل ہیں :
◾حضرت ابوبکرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا : غمزدہ کی دعا جس کو پڑھنے سے غم جاتا رہتا ہے وہ دعا یہ ہے؛
اللَّهُمَّ رَحْمَتَکَ أَرْجُو فَلَا تَکِلْنِي إِلَی نَفْسِي طَرْفَةَ عَيْنٍ وَأَصْلِحْ لِي شَأْنِي کُلَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اَنْتَ
ترجمہ : اے اللہ! میں تیری رحمت کا طلبگار ہوں پس مجھے ایک لمحہ کے لئے بھی میرے نفس کے سپرد نہ کر (کیونکہ وہ میرا بڑا دشمن ہے اور عاجز ہے وہ اس پر قادر نہیں ہے کہ حاجت روائی کر سکے) اور میرے سارے کاموں کو درست کر دے تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ (ابوداؤد، رقم : ٥٠٩٠)
◾حضرت اسماء بنت عمیس ؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے مجھ سے فرمایا کیا میں تجھ کو ایسے کلمات نہ سکھاؤں جن کو تو سختی اور مصیبت کے وقت پڑھا کرے وہ کلمات یہ ہیں :
أَللَّهُ أَللَّهُ رَبِّي لَا أُشْرِکُ بِهِ شَيْئًا
ترجمہ : اللہ میرا رب ہے میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں مانتا۔ (ابوداؤد، رقم : ١٥٢٥)
◾حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ مصیبت کے وقت یہ دعا پڑھتے :
لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْعَظِيمُ الْحَلِيمُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِيمِ
ترجمہ : عظمت والے اور بردباری والے اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں عرش عظیم کے پروردگار کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں آسمانوں کے رب زمین کے رب اور عزت والے عرش کے رب اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ (مسلم، رقم : ٢٧٣٠)
◾حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ صبح شام یہ دعائیں نہیں چھوڑا کرتے تھے :
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي دِينِي وَدُنْيَايَ وَأَهْلِي وَمَالِي اللَّهُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِي وَآمِنْ رَوْعَاتِي وَاحْفَظْنِي مِنْ بَيْنِ يَدَيَّ وَمِنْ خَلْفِي وَعَنْ يَمِينِي وَعَنْ شِمَالِي وَمِنْ فَوْقِي وَأَعُوذُ بِکَ أَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحْتِي
ترجمہ : اے اللہ میں تجھ سے دنیا و آخرت کی عافیت مانگتا ہوں یا الٰہی میں تجھ سے گناہوں کی معافی چاہتا ہے اور اپنے دین اور اپنی دنیا کے امور میں عیوب اور برائیوں سے اور اپنے اہل و عیال اور اپنے مال میں سلامتی مانگتا ہوں اے پروردگار میرے عیوب کی پردہ پوشی فرما اور مجھے خوف کی چیزوں سے امن میں رکھ(یعنی میری مصیبت اور بلائیں دور فرما) اور اے اللہ تو مجھے آگے سے پیچھے سے دائیں سے بائیں سے اوپر سے محفوظ رکھ اور اے اللہ تیری عظمت و کبریائی کے ذریعہ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ ہلاک کیا جاؤں اچانک نیچے کی جانب سے یعنی زمین میں دھنس جانے سے۔ (ابن ماجہ، رقم : ٣٨٧١)
الإصرار علی المندوب یبلغہ إلی حد الکراہۃ۔ (سعایۃ ۲؍۲۶۵، الدر المختار، باب سجدۃ الشکر / قبیل باب صلاۃ المسافر، ۲؍۵۹۸)
قالَ الطِّيبِيُّ : وفِيهِ أنَّ مَن أصَرَّ عَلى أمْرٍ مَندُوبٍ، وجَعَلَهُ عَزْمًا، ولَمْ يَعْمَلْ بِالرُّخْصَةِ فَقَدْ أصابَ مِنهُ الشَّيْطانُ مِنَ الإضْلالِ فَكَيْفَ مَن أصَرَّ عَلى بِدْعَةٍ أوْ مُنْكَرٍ؟ (مرقاۃ المفاتیح : ۲؍۱۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
25 محرم الحرام 1443
جَــــــــزَاک الــلّٰــهُ خَـــــيْراً
جواب دیںحذف کریںJazak allah mufti sahab
جواب دیںحذف کریںجزاک اللّہ، مفتی صاحب۔
جواب دیںحذف کریں