سوال :
مفتی صاحب ! ایک دوست نے غصے میں بیوی کو ایسا کہا ہے کہ "جا میں تجھے رکھنا نہیں چاہتا" تو کیا اس سے طلاق کا کوئی مسئلہ ہوگا؟
(المستفتی : حافظ جمیل، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں آپ کے دوست نے جو کہا ہے کہ "جا میں تجھے رکھنا نہیں چاہتا" یہ کنائی الفاظ ہیں، جن سے طلاق واقع ہونے کے لیے طلاق کی نیت ہونا ضروری ہے۔ لہٰذا اگر ان الفاظ سے طلاق کی نیت تھی تو ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی۔
ایک طلاق بائن کی صورت میں آپ کے دوست کی بیوی اسکے نکاح سے نکل جائے گی، اب وہ عدت گزارنے کے بعد کسی اور سے بھی نکاح کرسکتی ہے، اور چاہے تو عدت میں ہی یا عدت کے بعد نئے مہر کے ساتھ اس شخص سے بھی نکاح کرسکتی ہے۔ اس صورت میں شرعی حلالہ کی ضرورت نہ ہوگی۔ بشرطیکہ اس سے پہلے دو طلاق نہ ہوئی ہو۔
اور اگر طلاق کی نیت سے یہ الفاظ نہیں کہے گئے ہیں تو اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔
وَلَوْ قَالَ اذْهَبِي فَتَزَوَّجِي وَقَالَ لَمْ أَنْوِ الطَّلَاقَ لَا يَقَعُ شَيْءٌ لِأَنَّ مَعْنَاهُ إنْ أَمْكَنَكِ... إلی قولہ وَيُؤَيِّدُهُ مَا فِي الذَّخِيرَةِ اذْهَبِي وَتَزَوَّجِي لَا يَقَعُ إلَّا بِالنِّيَّةِ وَإِنْ نَوَى فَهِيَ وَاحِدَةٌ بَائِنَةٌ۔ (شامی : ٣/٣١٤)
أو تزوج ثانیاً في العدۃ۔ وفي الشامیۃ : فیما لو طلقہا بائناً بعد الدخول، ثم تزوجہا في العدۃ وجب کمال المہر الثانی بدون الخلوۃ والدخول۔ (درمختار مع الشامي، باب المهر،۴/۲۳۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 محرم الحرام 1443
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں