سوال :
مفتی صاحب! بیعت کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کسی پیرومرشد سے بیعت کرنے کا عمل شرعی طور پر جائز ہے یا نہیں؟ رہنمائی فرمائیں نوازش ہوگی۔
(المستفتی : ڈاکٹر مختار احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بیعت کا مطلب کسی مرشد کامل متبع سنت کے ہاتھ پر اپنے گناہوں سے توبہ کرنا اور آئندہ اس کی رہنمائی میں دین پر چلنے کا عہد کرنا۔ یہ عمل شرعاً جائز اور درست ہے، کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنا ثابت ہے جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہے :
حضرت عبادہ ابن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے چند آدمیوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بیعت کی، آپ نے فرمایا کہ میں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ تم اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ گے اور نہ چوری کرو گے اور نہ زنا کرو گے اور نہ اپنی اولاد کو قتل کرو گے اور نہ کوئی بہتان اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان سے گھڑ کر اٹھاؤ گے اور نہ کسی نیک کام میں میری نافرمانی کرو گے، تم میں سے جس نے پورا کیا اس کا اجر اللہ پر ہے۔
دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
تصوف، تزکیہٴ نفس کا طریقہ ہے، آدمی روحانی اور باطنی اصلاح کی غرض سے کسی مرشد کامل متبع سنت بزرگ کے ہاتھ پر گناہوں سے توبہ اور آئندہ اس کی راہنمائی میں دین پر چلنے کا عہد کرتا ہے، اس کو بیعت کہتے ہیں، صحابہٴ کرام کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کرنا ثابت ہے، اصلاح نفس تو واجب اور ضروری ہے البتہ اس کے لیے کسی مرشد کامل کے ہاتھ پر بیعت ہونا مستحب ہے۔ (رقم الفتوی : 23665)
خلاصہ یہ کہ نفس کی اصلاح ضروری ہے، اور اس کے لیے کسی پیر ومرشد (متبع سنت وصاحب نسبت بزرگ) سے بیعت ہوجانا مستحب امر ہے۔ اور اصلاحی تعلق کے لیے مزاج سے مناسبت نہایت ضروری ہے، مزاج سے مناسبت نہ ہو تو بیعت کا خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔
عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَهْطٍ فَقَالَ أُبَايِعُکُمْ عَلَی أَنْ لَا تُشْرِکُوا بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا تَسْرِقُوا وَلَا تَزْنُوا وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَکُمْ وَلَا تَأْتُوا بِبُهْتَانٍ تَفْتَرُونَهُ بَيْنَ أَيْدِيکُمْ وَأَرْجُلِکُمْ وَلَا تَعْصُونِي فِي مَعْرُوفٍ فَمَنْ وَفَی مِنْکُمْ فَأَجْرُهُ عَلَی اللَّهِ۔ (صحیح البخاري، رقم : ٦٨٠١)
اعلم أن البیعۃ سنۃ ولیست بواجبۃ… ولم یدل دلیل علی تأثیم تارکہا، ولم ینکر أحد علی تارکہا۔ (القول الجمیل : ۱۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 صفر المظفر 1443
جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء
جواب دیںحذف کریںجزاکم اللہ خیراً کثیرا
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیرا
جواب دیںحذف کریں