سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ ماں کا انتقال ہوجائے تو بچہ کس کی پرورش میں رہے گا؟ باپ یا نانی کی؟ جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : حافظ فیصل، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : والدہ کے انتقال کے بعد بچہ کی پرورش کی ذمہ داری نانی کی ہے، وہ بچے کو اس وقت تک اپنے پاس رکھ سکتی ہے جب تک اسے کھانے، پینے، پہننے اور دیگر ضروریات میں ماں کی ضرورت پڑے۔ اور اس کی مدت لڑکے کے لئے سات برس اور لڑکی کے لئے نو برس یعنی بالغ ہونے تک شرعاً مقرر کی گئی ہے۔ لیکن اگر خدا نخواستہ نانی مرتد ہوجائے یا بدچلن ہویا پاگل ہوجائے اور بچے کی حفاظت نہ کرسکے تو نانی کا حق پرورش باطل ہوجاتا ہے۔ اور یہ حق پھر بچے کی پڑنانی، دادی، پڑ دادی۔ پھر خالہ پھوپھی وغیرہا کے لئے ثابت ہوجاتا ہے۔ البتہ ہر صورت میں بچوں کے نان و نفقہ کا ذمہ دار والد ہوتا ہے، خواہ بچے ددھیال میں رہیں یا ننہیال میں۔ اور مذکورہ مدت کے بعد والد کو اس بات کا اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اپنے پاس رکھے۔
(ثُمَّ) أَيْ بَعْدَ الْأُمِّ بِأَنْ مَاتَتْ، أَوْ لَمْ تَقْبَلْ أَوْ أَسْقَطَتْ حَقَّهَاأَوْ تَزَوَّجَتْ بِأَجْنَبِيٍّ (أُمِّ الْأُمِّ) وَإِنْ عَلَتْ عِنْدَ عَدَمِ أَهْلِيَّةِ الْقُرْبَى (ثُمَّ أُمِّ الْأَبِ وَإِنْ عَلَتْ) بِالشَّرْطِ الْمَذْكُورِ وَأَمَّا أُمُّ أَبِي الْأُمِّ فَتُؤَخَّرُ عَنْ أُمِّ الْأَبِ بَلْ عَنْ الْخَالَةِ أَيْضًا بَحْرٌ (ثُمَّ الْأُخْتِ لِأَبٍ وَأُمٍّ ثُمَّ لِأُمٍّ) لِأَنَّ هَذَا الْحَقَّ لِقَرَابَةِ الْأُمِّ (ثُمَّ) الْأُخْتِ (لِأَبٍ) ثُمَّ بِنْتِ الْأُخْتِ لِأَبَوَيْنِ ثُمَّ لِأُمٍّ ثُمَّ لِأَبٍ (ثُمَّ الْخَالَاتِ كَذَلِكَ) أَيْ لِأَبَوَيْنِ، ثُمَّ لِأُمٍّ ثُمَّ لِأَبٍ، ثُمَّ بِنْتِ الْأُخْتِ لِأَبٍ ثُمَّ بَنَاتِ الْأَخِ (ثُمَّ الْعَمَّاتِ كَذَلِكَ)۔ (شامی : ٣/٥٦٣)
إلَّا أَنْ تَكُونَ مُرْتَدَّةً أَوْ فَاجِرَةً غَيْرَ مَأْمُونَةٍ كَذَا فِي الْكَافِي۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٥٤١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 صفر المظفر 1443
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں