سوال :
مفتی صاحب ! نماز کن وجوہات کی بناء پر توڑی جاسکتی ہے؟ اور نماز توڑنے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟
(المستفتی : حافظ عبداللہ، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ایسی کوئی شدید ضرورت پیش آجائے جس کے نقصان کی تلافی ممکن نہ ہو، مثلاً کوئی پانی میں ڈوب جائے گا یا آگ وغیرہ سے جل جائے گا یا کوئی موذی جانور مثلاً سانپ، بچھو وغیرہ نقصان پہنچا دے گا یا پھر نماز میں مشغول رہنے سے مخصوص مقدار میں مالی نقصان ہوجائے گا تو ان صورتوں میں نماز توڑنا جائز ہے، بلکہ جانی نقصان کے اندیشہ کی صورت میں نماز توڑ دینا ضروری ہے۔
جن حالتوں میں نماز کی نیت توڑنے کا حکم ہے یا اجازت ہے، اس وقت قیام یا قعدہ کی حالت میں صرف دائیں طرف سلام پھیر کر نماز توڑنا بہتر ہے۔
مالی نقصان کی صورت میں نماز توڑنے سے متعلق ہمارا یہ جواب ملاحظہ فرمائیں :
موبائل چوری کرنے والے کو نماز توڑ کر پکڑنا
(لَا) يُكْرَهُ (قَتْلُ حَيَّةً أَوْ عَقْرَبٍ) إنْ خَافَ الْأَذَى ۔۔۔۔۔ (مُطْلَقًا) وَلَوْ بِعَمَلٍ كَثِيرٍ عَلَى الْأَظْهَرِ، لَكِنْ صَحَّحَ الْحَلَبِيُّ الْفَسَادَ، (قَوْلُهُ لَكِنْ صَحَّحَ الْحَلَبِيُّ الْفَسَادَ) حَيْثُ قَالَ تَبَعًا لِابْنِ الْهُمَامِ: فَالْحَقُّ فِيمَا يَظْهَرُ هُوَ الْفَسَادُ، وَالْأَمْرُ بِالْقَتْلِ لَا يَسْتَلْزِمُ صِحَّةَ الصَّلَاةِ مَعَ وُجُودِهِ كَمَا فِي صَلَاةِ الْخَوْفِ، بَلْ الْأَمْرُ فِي مِثْلِهِ لِإِبَاحَةِ مُبَاشَرَتِهِ وَإِنْ كَانَ مُفْسِدًا لِلصَّلَاةِ۔ (شامی : ١/٦٥٠)
وفي المحيط يقطعها قائما بتسليمة واحدة وهو الأصح۔ (بنایہ شرح ہدایہ : ٢/٥٦٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
14 صفر المظفر 1443
جزاکم اللہ خیرا کثیراً کثیرا
جواب دیںحذف کریں