سوال :
محترم مفتی صاحب! آجکل مسجدوں میں ایک ہی کمپنی/ برانڈ/نمبر کے چپل ہونے کی وجہ سے چپل بدلی ہو جاتے ہیں، جسے سمجھ میں آ جاتا ہے کہ یہ میرا نہیں ہے فوراً اتار دیتا ہے۔ مگر اسکا چپل غائب رہتا ہے، بحالت مجبوری (کچھ لوگوں کے کہنے پر بھی) وہی چپل جو اسے پتہ ہے کہ میرا نہیں ہے (حالانکہ نمبر، کمپنی، کوالیٹی سب سیم ہوتی ہے) اسے پہن کر گھر آنا پڑتا ہے۔ ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟ کیا وہ چپل اپنی ملکیت ہو سکتی ہے؟
نوٹ : دوسری نماز میں دوبارہ مسجد جانے کے باوجود اپنا چپل واپس نہیں ملتا، اور اگر ہم خود ہی دور دراز کی مسجدوں میں نماز کے لیے گئے ہوں اور بعد میں واپس نہیں جا سکتے۔
(المستفتی : عمران الحسن، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں اگر کمپنی، ڈیزائن یا اور کسی طریقے سے غالب گمان ہوجائے کہ یہ اُسی شخص کی چپل ہے جو آپ کی چپل پہن کر گیا ہے تو ایسی صورت میں آپ وہ چپل لے جاسکتے ہیں، البتہ آپ کو یہ کوشش بھی کرنا ہے کہ آپ کو آپ کی چپل مل جائے اور دوسرے کی چپل اسے مل جائے، لہٰذا آپ بطور خاص اس مسجد میں اپنی چپل کے لیے جائیں۔ لیکن کوشش کے باوجود آپ کی چپل نہ مل سکے تو آپ یہ چپل استعمال کرتے رہیں، البتہ اگر یہ چپل آپ کی چپل سے عمدہ ہے تو آپ کچھ رقم اس چپل کے مالک کی طرف سے صدقہ کردیں۔
وَفِي الْخَانِيَّةِ : وَضَعَتْ مُلَاءَتَهَا وَوَضَعَتْ الْأُخْرَى مُلَاءَتَهَا ثُمَّ أَخَذَتْ الْأُولَى مُلَاءَةَ الثَّانِيَةِ لَا يَنْبَغِي لِلثَّانِيَةِ الِانْتِفَاعُ بِمُلَاءَةِ الْأُولَى، فَإِنْ أَرَادَتْ ذَلِكَ قَالُوا يَنْبَغِي أَنْ تَتَصَدَّقَ بِهَا عَلَى بِنْتِهَا الْفَقِيرَةِ بِنِيَّةِ كَوْنِ الثَّوَابِ لِصَاحِبَتِهَا إنْ رَضِيَتْ ثُمَّ تَسْتَوْهِبُ الْمُلَاءَةَ مِنْ الْبِنْتِ؛ لِأَنَّهَا بِمَنْزِلَةِ اللُّقَطَةِ۔ وَكَذَلِكَ الْجَوَابُ فِي الْمُكَعَّبِ إذَا سُرِقَ اهـ وَقَيَّدَهُ بَعْضُهُمْ بِأَنْ يَكُونَ الْمُكَعَّبُ الثَّانِي كَالْأَوَّلِ أَوْ أَجْوَدَ، فَلَوْ دُونَهُ لَهُ الِانْتِفَاعُ بِهِ بِدُونِ هَذَا التَّكَلُّفِ؛ لِأَنَّ أَخْذَ الْأَجْوَدِ وَتَرْكَ الْأَدْوَنِ دَلِيلُ الرِّضَا بِالِانْتِفَاعِ بِهِ، كَذَا فِي الظَّهِيرِيَّةِ، وَفِيهِ مُخَالَفَةٌ لِلُّقَطَةِ مِنْ جِهَةِ جَوَازِ التَّصَدُّقِ قَبْلَ التَّعْرِيفِ وَكَأَنَّهُ لِلضَّرُورَةِ اهـ مُلَخَّصًا.
قُلْت: مَا ذَكَرَ مِنْ التَّفْصِيلِ بَيْنَ الْأَدْوَنِ وَغَيْرِهِ إنَّمَا يَظْهَرُ فِي الْمُكَعَّبِ الْمَسْرُوقِ، وَعَلَيْهِ لَا يُحْتَاجُ إلَى تَعْرِيفٍ؛ لِأَنَّ صَاحِبَ الْأَدْوَنِ مُعْرِضٌ عَنْهُ قَصْدًا فَهُوَ بِمَنْزِلَةِ الدَّابَّةِ الْمَهْزُولَةِ الَّتِي تَرَكَهَا صَاحِبُهَا عَمْدًا بَلْ بِمَنْزِلَةِ إلْقَاءِ النَّوَى وَقُشُورِ الرُّمَّانِ. أَمَّا لَوْ أَخَذَ مُكَعَّبَ غَيْرِهِ وَتَرَكَ مُكَعَّبَهُ غَلَطًا لِظُلْمَةٍ أَوْ نَحْوِهَا وَيُعْلَمُ ذَلِكَ بِالْقَرَائِنِ فَهُوَ فِي حُكْمِ اللُّقَطَةِ لَا بُدَّ مِنْ السُّؤَالِ عَنْ صَاحِبِهِ بِلَا فَرْقٍ بَيْنَ أَجْوَدَ وَأَدْوَنَ، وَكَذَا لَوْ اشْتَبَهَ كَوْنُهُ غَلَطًا أَوْ عَمْدًا لِعَدَمِ دَلِيلِ الْإِعْرَاضِ، هَذَا مَا ظَهَرَ لِي فَتَأَمَّلْهُ۔ (شامی : ٤/٢٨٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 صفر المظفر 1443
👍
جواب دیںحذف کریںجزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء
جواب دیںحذف کریں