*معہد ملت کی عظمت کے منارے*
✍️ محمد عامرعثمانی ملی
(امام وخطیب مسجد کوہ نور)
٢٣ ستمبر ٢٠٢١ء بروز جمعرات جامعہ معہد ملت مالیگاؤں کے فارغین کا 68 سالہ یک روزہ بامقصد اور تربیتی پروگرام منعقد کیا جارہا ہے۔ جس کو لے کر ابنائے معہد ملت کا جوش وخروش قابلِ دید ہے، سوشل میڈیا پر ایک سے ایک خوبصورت اور سحر انگیز اردو اور عربی تحریریں ملی برادران بڑی محنت اور عقیدت سے لکھ کر ارسال کررہے ہیں، جن میں بانی معہد ملت مولانا حضرت مولانا عبدالحمید صاحب نعمانی، سابق شیخ الحدیث حضرت مولانا حنیف صاحب ملی رحمہما اللہ اور حضرت مولانا قاضی عبدالاحد صاحب ازہری دامت برکاتہم کے ساتھ ساتھ دیگر ملی فارغین اور اپنے اساتذہ کرام سے متعلق تاثرات کو پیش کیا جارہا ہے، جنہیں پڑھ کر ان شخصیات کی عقیدت و عظمت دل میں مزید بڑھ گئی ہے۔
انتظامیہ کی جانب سے سوشل میڈیا پر اجلاس کی تشہیر کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، بندہ چونکہ سوشل میڈیا پر سرگرم رہتا ہے، اس لیے حسن ظن کی بنیاد پر بندے کو بھی اس میں شامل کرلیا گیا، لیکن بندہ اپنی مصروفیات کی وجہ سے کما حقہ اس ذمہ داری کو ادا نہیں کرسکا، جس کے لیے بندہ انتظامیہ سے معذرت خواہ ہے۔ مصروفیات بھی چونکہ ایسی ہیں کہ تینوں وقت مدرسہ کے بعد جو وقت ملتا ہے اس میں سوشل میڈیا پر فتوی نویسی کا کام انجام دیا جاتا ہے، اور یہ مصروفیات دن بدن ایسی بڑھتی چلی جارہی ہیں کہ دماغ ہر وقت کسی فقہی مسئلہ میں الجھا ہوتا ہے، یکسوئی نہیں ہوپاتی، جو اس طرح کی تاثراتی تحریروں کے لکھنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ لیکن ملی برادران کا جوش وخروش بالخصوص حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی جیسی قیمتی اور مصروف ترین شخصیت بھی اس اجلاس کی کامیابی کے لیے ہمہ تن مصروف ہے، تو پھر بندہ نے بھی یہ طے کرلیا کہ ان شاءاللہ کچھ نہ کچھ خامہ فرسائی ضرور کی جائے تاکہ شہیدوں (کوشش کرنے والوں) میں نام آجائے خواہ صرف انگلی کٹا کر ہی کیوں نہ ہو۔
ملحوظ رہے کہ بندہ خالص ملی ہے، یعنی مدرسہ عثمانیہ سے حفظ سے فراغت کے بعد عالمیت وافتاء کی تعلیم معہد ملت میں ہی ہوئی، مزید تعلیم کے لیے کسی اور ادارہ کی طرف رجوع کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اس کے باوجود قاسمی حضرات سمجھتے ہیں کہ بندہ قاسمی ہے، اور عثمانی نسبت کی وجہ سے کتنے ہندوستانی اور پاکستانی حضرات واٹس اپ کے ذریعے دریافت کرچکے ہیں کہ کیا آپ مفتی تقی صاحب عثمانی کی خاندان سے ہیں؟ خلاصہ یہ کہ بندہ آج جو کچھ بھی ہے یہ بلاشبہ اللہ تعالٰی کا فضل اور مادر علمی معہد ملت کا فیض ہے۔
یوں تو معہد ملت کی عظمت کے مناروں اور اس کی نیک نامی میں چار چاند لگانے والے قابل فرزندان کی ایک طویل فہرست ہے، لیکن بندہ اس مضمون میں صرف ان مناروں کا تذکرہ عام فہم انداز میں اور بغیر کسی تصنع، غلو اور مبالغہ کے کرے گا جن کے سامنے بندہ نے زانوئے تلمذ تہ کیا ہے۔ اور یہاں بھی صرف انہیں باتوں کا تذکرہ ہوگا جن کا دوران درس مشاہدہ ہوا ہے۔ ورنہ ان میں بعض شخصیات تو ایسی ہیں کہ ان کی خصوصیات اور خدمات کا احاطہ کیا جائے تو کم از کم ایک کتابچہ ضرور وجود میں آسکتا ہے۔
*مولانا محمد ادریس صاحب عقیل ملی*
بخاری اور مسلم شریف کی پہلی جلد ہم نے آپ سے پڑھی ہے، اور بخاری شریف کی تکمیل بھی آپ نے ہی فرمائی تھی، نیز آپ کے ہی دست مبارک سے سند فضیلت ومسلسلات حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔
باوجود پیرانہ سالی کے آپ کی اسباق میں حاضری قابل رشک تھی، مدرسہ آئے ہیں تو سبق ضرور ہوگا، اور غیرحاضری بھی سال بھر میں بالکل نہ کے برابر ہوں گی۔ احادیث مبارکہ کی دلفریب تشریح اور راویوں کے حالات پر آپ کا درس انتہائی محقق ہوتا ہے۔ آپ کا بیان کردہ مسلم شریف کا مقدمہ طلبہ میں مشہور ہے۔ جو بلاشبہ آپ کے حافظہ کے غیرمعمولی قوی ہونے کی دلیل ہے جس کی وجہ سے آپ کو نمونہ اسلاف کہا جائے تو مبالغہ کا شائبہ تک نہیں ہوگا۔ درس کے بعد آپ کو بذریعہ ٹووھیلر ادارہ اصلاح المسلمین پہنچانے کی بظاہر چھوٹی سی خدمت لیکن اجر وثواب کے اعتبار سے بہت بڑی سعادت حاصل کرنے کا موقع بندے کو ملا۔ اس دوران بھی مختلف موضوعات پر حضرت مولانا سے علمی استفادہ کا موقع میسر آ جاتا۔ حضرت مولانا اب بھی ملاقات پر بندے کی موجودہ فتوی نویسی کی مصروفیات کی حوصلہ افزائی فرماتے رہتے ہیں۔
*مولانا سعید احمد صاحب ملی*
آپ سے ہم نے گلستان کے ساتھ ساتھ ہدایہ اولین پڑھنے کا شرف حاصل کیا ہے، آپ کا درس کیا ہوتا؟ گویا کوئی انتہائی لطیف شئے ہمارے دل ودماغ میں اتاری جارہی ہے۔ یعنی آپ کا انداز ایسا دلپذیر ہوتا تھا کہ تھا کہ درس بالکل آسانی سے سمجھ میں آجاتا تھا۔ فارسی زبان میں مہارت کی وجہ سے آپ طلبہ میں شیخ سعدی کے نام سے بھی مشہور ہیں، سادگی ایسی کہ نہ جاننے والا انہیں کچھ اور تو سمجھ سکتا ہے لیکن اتنے مشہور اور بڑے جامعہ کا صدر المدرسین تو بالکل نہیں سمجھ سکتا۔ آپ کا دل ہمیشہ مدرسہ میں اٹکا ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مدرسہ کے اوقات کے علاوہ اور تعطیلات کے ایام میں بھی آپ مدرسہ میں ہوتے ہیں۔
*مولانا اقبال احمد صاحب ملی*
ہم نے آپ سے تیسر المنطق، شرح وقایہ، ہدایہ اولین، ترمذی شریف اور تخصص میں درمختار پڑھی ہے۔ آپ کو استقامت کا پہاڑ کہا جائے تو یہ غلو بالکل بھی نہیں ہوگا، ضعیفی کے ایام میں بھی بلا ناغہ مدرسہ میں حاضری، درس کی پابندی اور ہر کتاب کو شرح وبسط کے ساتھ پڑھانا بالخصوص ترمذی شریف کے دو گھنٹے مسلسل احادیث کی تشریح اور شانِ ورود بیان کرنا آپ کا معمول اور امتیاز ہے۔
*مولانا محمد یسین ذوق صاحب ملی*
آپ سے ہم نے اصول الشاشی، نور الانوار اور تخصص میں احکام القرآن نامی کتابیں پڑھی ہیں، آپ پابندی وقت، دلجمعی اور بڑی محنت کے ساتھ درس دیا کرتے تھے، دوران درس طلبہ کو اشکال ہوتو بشاشت کے ساتھ اسے سمجھا دینا آپ کا معمول تھا۔
*مولانا نہال احمد صاحب ملی نور اللہ مرقدہ*
آپ سے ہم نے دینی تعلیم کا رسالہ پڑھا ہے اور عام معلومات کا گھنٹہ آپ کے ذمہ تھا، مولانا مرحوم کو بلاشبہ معلومات کا خزانہ کہا جاسکتا ہے۔ گھنٹوں کی تقسیم کرنے والوں نے بلاشبہ ہر استاذ کی مہارت اور دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں گھنٹے تقسیم کیے تھے جس کے لیے یہ حضرات بھی مبارکباد اور دعا کے حقدار ہیں۔ مولانا مرحوم کی معلومات کا دائرہ دینی معلومات کے ساتھ ساتھ تاریخ، جغرافیہ اور شہریت تک پھیلا ہوا تھا۔ بظاہر سخت نظر آنے والے لیکن اندر سے انتہائی نرم طبیعت کے مالک تھے۔ آپ سے ہم نے جماعت دوم اور سوم میں استفادہ کیا، اس کے بعد بھی بندے کے آپ سے خوشگوار تعلقات رہے ہیں۔ آج آپ ہمارے درمیان نہیں رہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین
*مولانا مقبول اختر صاحب ملی قاسمی*
آپ سے ہم نے بخاری شریف جلد ثانی، ابوداؤد شریف، ہدایہ اخیرین، شرح معانی الآثار، سراجی اور تخصص میں رسم المفتی اور الاشباہ والنظائر نامی کتابیں پڑھی ہیں، مولانا کی متعلقہ کتابوں پر گرفت بہت مضبوط ہوتی ہے، درس کا حق ادا کردینا اور سمجھنے والے طالب علم کو مشکل سے مشکل بحث سمجھا دینا آپ کی خصوصیات میں سے ہے۔
ہدایہ میں کتاب البیوع کا درس کوئی معمولی بات نہیں ہے، بندہ نہیں سمجھتا ہے کہ مالیگاؤں میں کوئی عالم آپ جیسا کتاب البیوع کا درس دے سکے۔ آپ کا طریقہ تدریس ایسا ہوتا تھا کہ معمولی دلچسپی رکھنے والا طالب علم بھی بحث کو اچھی طرح سمجھ لے، اسی طرح ابوداؤد شریف اور طحاوی شریف کا درس بھی مدلل اور محقق ہوا کرتا ہے۔ طحاوی شریف کے درس کی اہم باتوں کو بندہ نوٹ کرلیا کرتا تھا۔ کئی سالوں سے درس دینے کے باوجود مطالعہ کرکے ہی درس دینے کا معمول ہے۔
آج بھی ہدایہ کا سبق شروع کرتے وقت آپ کا یہ کہنا کہ "ہاں تو مسئلہ یہ تھا" اور طحاوی شریف کی بحث میں راجح قول بیان کرتے ہوئے آپ کے آخری کلمات "اور یہی ہمارے ائمہ امام ابوحنیفہ، امام ابو یوسف اور امام محمد ابن حسن رحمہم اللہ کا مذہب ہے" کانوں میں گونجتے ہیں۔
*حضرت مولانا زبیر احمد صاحب ندیمی ملی*
آپ سے ہم نے کفاک ثالث، رحمت عالم، العقیدۃ السنیہ، جلالین اول، مشکوۃ ثانی، مسلم شریف ثانی پڑھی ہے۔
آپ طلبہ کی تعلیم کے ساتھ ان کی تربیت پر بھی خصوصی توجہ دیا کرتے تھے، وقت کی پابندی آپ کے گھنٹے میں انتہائی ضروری تھی، ایک منٹ تاخیر پر بھی سزا ضرور ملتی تھی، طلبہ سے فجر کی نماز سے متعلق باز پُرس آپ کا معمول تھا۔ فضول کاموں میں کسی طالب علم کو مصروف دیکھ کر فوراً ٹوکنا اور اپنے مخصوص لب ولہجہ میں یہ کہنا کہ "کیا کر رہا؟ حماقت جاری ہے۔" ہمیشہ یاد آتا ہے۔ طلبہ کے تئیں اس فکرمندی کی بنا پر آپ کو ایک بہترین اتالیق کہا جاسکتا ہے۔ اور گذشتہ کئی سالوں سے آپ یہ ذمہ داری بحسن وخوبی انجام دے رہے ہیں۔
زبان وادب میں آپ کی مہارت کا یہ عالم تھا کہ رحمت عالم کے سوال جواب کی بیاض جانچتے ہوئے غلطیوں پر اس تیزی سے نشاندہی فرماتے تھے کہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ غلطیوں نے خود اپنے آپ کو جلی حرفوں میں ڈھال لیا ہو یا وہ مولانا کو پکار کر کہہ رہی ہوں کہ مولانا ہم بھی ہیں، ہم پر بھی ظلم ہوا ہے۔ اسی لیے بہت سے مصنفین اور مرتبین اپنی کتابوں کا مسودہ بطور خاص پروف ریڈنگ کے لیے مولانا کی خدمت میں پیش کرتے ہیں تاکہ کتاب املاء اور زبان وادب کی غلطیوں سے پاک شائع ہو۔
آپ کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ آپ کمزور سے کمزور طالب علم کے اندر یہ صلاحیت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں آپ بڑی حد تک کامیاب بھی ہیں کہ وہ اپنے گاؤں اور دیہات کی مسجد میں امامت کی ذمہ داری بخوبی ادا کرلے۔ جس کے لیے آپ غیرحافظ طلبہ کو سورہ حجرات سے لے کر سورہ ناس تک حفظ کروانے اور تقریر کی مشق کے لیے ترغیب، ترہیب اور تضریب تینوں سے کام لیتے ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ مہاراشٹر کے بیشتر علاقوں میں آپ کو ملی فارغین امامت و خطابت کی ذمہ داری بحسن وخوبی انجام دیتے ہوئے ملیں گے۔
*مولانا اشتیاق ضمیر صاحب ملی ندوی*
آپ سے کفاک دوم، قدوری، مختارات اول، اور تخصص میں حجۃ اللہ البالغہ پڑھی ہیں۔ آپ کے درس کی ایک الگ ہی شان ہے، آپ ہر کتاب کو بالکل بنیادی طرز پر پڑھاتے تھے، عبارت خوانی سے لے کر ترکیب تک، ترجمہ سے لے کر تشریح تک، ہر مرحلہ طلبہ کو خود طے کرنا ہے۔ کسی کو اس طریقہ تدریس سے اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن بندے کو بہرحال اس کا بڑا فائدہ ہوا ہے۔ جو اسباق آپ سے پڑھے آج بھی اچھی طرح یاد ہیں۔
عربی زبان میں مزید نکھار پیدا کرنے کے لیے آپ اپنی نگرانی میں طلبہ کی آپس میں عربی میں بات چیت بھی کرواتے تھے۔ عربی گرامر پر آپ کو ایسا بلا کا عبور ہے کہ بعض مرتبہ مذاق میں عبارت پڑھنے والے طالب علم کو کہہ دیا کرتے تھے کہ میں آر، ٹی، او ہوں کہیں سے بھی غلطی نکال کر گرفت کرلوں گا۔ طلبہ کے امتحانی پرچوں کو ایسی باریک بینی سے جانچ کرتے ہیں کہ بعض مرتبہ کسی طالب علم کو آدھی مارکس مثلاً ٤٠.٥ بھی دے دیا کرتے ہیں۔ جسمانی اعتبار سے دبلے پتلے ہونے کے باوجود رعب ایسا ہے کہ آج بھی آپ سے بات کرتے ہوئے زبان لڑکھڑا جاتی ہے۔
*مولانا محمد یسین صاحب ملی*
آپ کے ذمہ اردو املاء کا گھنٹہ تھا، نیز عربی ادب، چہل سبق، حکایات لطیف اور پندنامہ پڑھنے کا موقع ملا۔ آپ اپنے انتہائی مشفقانہ مزاج اور نرم لب ولہجہ کی وجہ سے طلبہ میں ہر دلعزیز سمجھے جاتے ہیں، آپ جید عالم ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین کاتب اور ادیب بھی ہیں، چنانچہ اردو املاء کا گھنٹہ آپ کے ذمہ ہونے کی وجہ سے ہماری اردو لکھاوٹ میں کافی سدھار آیا۔ فارسی زبان کے بنیادی قواعد آپ نے ایسے سہل انداز میں مرتب کیے ہیں کہ کوئی عالم ان سے استفادہ کرکے خود بھی فارسی زبان کی بنیادی تعلیم کی تدریسی ذمہ داری قبول کرکے اسے بحسن و خوبی انجام دے سکتا ہے۔
آپ نے ایک مرتبہ یہ نصیحت کی تھی کہ ہمیشہ ایسے لوگوں کے ساتھ رہو جو خود بھی عالم یا حافظ ہوں، کیونکہ عام لوگوں کے ساتھ رہنے میں اگر خدانخواستہ بتقاضہ بشریت کوئی غلطی ہوجائے تو عام آدمی کم ظرف ہوا تو آپ کے ساتھ ساتھ تمام علماء وحفاظ سے بدظن ہوجائے گا، جبکہ علماء اور حفاظ ہی ساتھ ہوں تو اس بات کا اندیشہ نہیں رہے گا۔ بلاشبہ یہ حکیمانہ نصیحت ہے جو ذاتی طور پر بندے کو بہت پسند آئی تھی اور بندہ آج بھی اس پر کاربند ہے۔ اور بندے نے بذات خود اس کے خلاف کرنے والوں کو نقصان اٹھاتے ہوئے دیکھا ہے۔
*مولانا جمال عارف صاحب ندوی*
آپ سے ہم نے سائنس، انگریزی، النحو الواضح، ریاض الصالحین، مشکوۃ اول، اور مختارات دوم پڑھی ہیں، ریاض الصالحین کے درس کی تو طلبہ میں دھوم تھی۔ غیرسنجیدہ طلبہ بھی آپ کا درس بہت شوق سے سنتے تھے، ترجمہ وتشریح کے ساتھ آپ روایت کرنے والے صحابہ کرام کے حالات پر بھی گفتگو فرماتے، کعب ابن مالک رضی اللہ عنہ والی طویل حدیث کے درس کے دوران شاید ہی کسی طالب علم کی آنکھیں نم یا دل بھر نہ آیا ہو۔ بندہ آپ کا درس لکھ لیا کرتا تھا، یہی وہ استاذ ہیں جن سے ہم نے دوم سے لے کر ہفتم تک ہر جماعت میں شرف تلمذ حاصل کیا ہے۔ یہاں تک کہ تخصص فی الافتاء میں مفتی حامد ظفر صاحب کی علالت کی وجہ سے آپ کو سراجی دی گئی تھی، لیکن دو چار دن کے بعد ہی مفتی صاحب کی واپسی کے بعد دوبارہ مفتی صاحب کو سراجی دے دی گئی تھی۔
بندہ کا آج بھی حضرت مولانا سے بہت گہرا تعلق ہے، اور کسی بھی اہم کام میں حضرت مولانا سے مشورہ کیا جاتا ہے اور ہر مرتبہ آپ کی طرف سے انتہائی مناسب اور خیر خواہی پر مبنی رہنمائی کی جاتی ہے۔ آپ معہد ملت سے فارغ التحصیل تو نہیں ہیں، لیکن معہد ملت کی فکریں آپ کے مزاج کا حصہ ہیں، معہد ملت سے علیحدگی کے باوجود آج بھی معہد آپ کے دل میں بستا ہے، اور کیوں نہ ہو؟ مادر علمی کے بعد ایک فکرمند معلم کے لیے وہ درسگاہ بھی بہت اہمیت رکھتی ہے جہاں سے اس نے اپنی تدریس کا آغاز کیا ہو اور سالوں وہاں اس نے درس وتدريس کا مبارک سلسلہ جاری رکھا اور قابل تلامذہ کی ایک بڑی تعداد تیار کی ہو۔
آپ کی دیگر خصوصیات کے ساتھ ایک بڑی خاصیت یہ بھی ہے کہ آپ کا رابطہ فراغت کے بعد بھی اپنے شاگردوں سے مضبوط ہوتا ہے۔ جن طلبہ کو مزید تعلیم حاصل کرنا ہو یا انہیں خود کسی طالب علم کے بارے میں یہ محسوس ہوجائے کہ یہ مزید تعلیم حاصل کرسکتا ہے تو اسے ترغیب دے کر دارالعلوم ندوۃ العلماء میں داخلہ تک کی کارروائی خود جاکر پوری کرتے تھے۔ جو بلاشبہ اپنے آپ میں ایک بہت بڑا کام ہے۔
*مفتی حامد ظفر صاحب ملی رحمانی*
آپ سے ہم نے مکمل ترجمہ قرآن، درمختار کا ایک حصہ، اور تخصص میں دوبارہ سراجی پڑھی ہے۔ حضرت مفتی صاحب کا درس قرآن تفسیر کے ساتھ ساتھ بزرگان دین کے واقعات سے بھی مزین ہوا کرتا ہے۔ آپ قرآن مجید کا ترجمہ اس روانی اور سلاست سے کرتے تھے کہ ایسا گمان ہوتا تھا کہ آپ دیکھ کر ترجمہ کررہے ہیں۔ سراجی فی المیراث پر آپ کی گرفت لاجواب ہے، مشکل سے مشکل اسباق کو آپ یوں سمجھا دیا کرتے تھے۔ اسی کے ساتھ آپ کی خوش آوازی، نرم لب و لہجہ اور ہنس مکھ نورانی چہرہ آپ سے عقیدت ومحبت رکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔
*مفتی حسنین محفوظ صاحب ملی نعمانی*
عالمیت کے چھ سال میں تو ہمیں آپ سے کوئی کتاب پڑھنے کا موقع نہیں ملا، البتہ تخصص فی الافتاء میں تمرین افتاء وقضاء کی مشق آپ کی نگرانی میں ہوئی ہے۔ آج بھی بوقت ضرورت بندہ حضرت مفتی صاحب سے جوابات کی تصویب کرواتا رہتا ہے۔ اور آپ انتہائی شفقت کا معاملہ کرتے ہوئے مکمل رہنمائی فرماتے ہیں۔ حضرت مفتی صاحب کو کم عمری میں ہی اللہ تعالیٰ نے بے پناہ صلاحیتوں سے نواز دیا ہے۔ درس میں کسی بحث کے دوران احادیث کے متن کو پڑھنا یہاں تک کہ ان کا حکم بھی بیان کرنا آپ کا ہی خاصہ ہے۔ بلاشبہ آپ مسند قضا کے حقدار ہیں، آپ کی بارعب شخصیت، بات کرنے اور سمجھانے کا طریقہ ایسا ہوتا ہے کہ مقدمات سے متعلق افراد آپ سے مرعوب و متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ تمرین قضا میں چونکہ طلبہ کو مقدمات کی سماعت کا موقع بھی دیا جاتا ہے، چنانچہ متعدد مرتبہ بسر چشم اس کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔
*مولانا فضیل احمد صاحب ملی ندوی*
آپ سے ہم نے کفاک رابع، البلاعۃ الواضحہ، اور منثورات پڑھی ہیں۔ عربی ادب میں آپ کی قابلیت کا لوہا مانا گیا ہے۔ آپ درس بڑی جانفشانی کے ساتھ دیا کرتے تھے، دوران درس یا درس کے بعد کسی طالب علم کو کوئی بات سمجھ میں نہ آئے اور وہ پوچھ لے تو اس کے لیے بالکل بِچھ سے جاتے تھے، اور پوری توجہ اور انہماک کے ساتھ اسے وہ قاعدہ اور ضابطہ سمجھایا کرتے یہاں تک کہ اسے سمجھ جائے۔ آپ بظاہر طلبہ سے ہنسی مذاق بھی کرلیا کرتے تھے، لیکن حقیقتاً آپ نہایت سنجیدہ اور متقی عالم دین ہیں۔
*قاری نعیم احمد صاحب ملی*
آپ سے قرآن مجید باالتجويد اور مفید الاطفال پڑھنے کا موقع ملا حالانکہ حافظ ہونے کی وجہ سے اس وقت بندہ خود بھی مغرب بعد مدرسہ عثمانیہ میں تجوید پڑھایا کرتا تھا، جس میں مفید الاطفال ہی زیر درس تھی، یہی وجہ ہے کہ تجوید کے امتحان میں نمبرات سو میں سے سو ملتے تھے۔ قاری صاحب بڑے فکرمند اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں، آپ بہترین قاری ہونے کے ساتھ انتقال فن کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ جامعہ معہد ملت کے اساتذہ میں کسی کو قرآن مجید کے ترجمہ وتفسیر میں مہارت ہے تو کوئی احادیث کے اصول وشرح میں ماہر۔ کوئی فقہ میں مشاق ہے تو کوئی عربی ادب کا شہہ سوار۔ یہاں کے اساتذہ میں پختہ ترین حفاظ بھی ہیں جو جید حفاظ کرام تیار کرنے کا ہنر جانتے ہیں، ایسے ماہر فن قراء بھی ہیں جو آیات بینات کی بہترین تلاوت کے ساتھ اس بات میں بھی مہارت رکھتے ہیں کہ طلبہ میں بھی یہی استعداد پیدا کردیں۔
گویا کہ مادر علمی ایک ایسا گلستاں ہے جس میں ہر طرح کی عمدہ عمدہ خوشبو رکھنے والے پھولوں کی کیاریاں ہیں، اب یہ گلستاں کی سیر کرنے والے پر ہے کہ وہ کس پھول سے کتنا محظوظ ہوتا ہے؟ اور اپنے ذہن ودماغ کو کتنے پھولوں کی خوشبوؤں سے معطر کرتا ہے اور اپنی روح کو کتنا سکون پہنچاتا ہے؟ اور بندے کو برملا اس بات کا اعتراف ہے اور ہمیشہ یہ احساس رہتا ہے کہ جیسی محنت کے ساتھ پڑھنا چاہیے تھا ویسا نہیں پڑھا اس کے باوجود اللہ تعالٰی کا فضل اور اساتذہ کی توجہات کی برکت رہی کہ ہر جماعت میں پہلی پوزیشن بندے اور رفیقان محترم مولوی سعدین ابن مولانا محفوظ الرحمن قاسمی رحمۃ اللہ علیہ اور مولوی اطہر ابن مولانا مقبول اختر ملی قاسمی کے درمیان گشت کرتی رہتی تھی۔ اور آج بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے علم سے دوسروں کو نفع پہنچانے کی سعادت نصیب فرمائی ہے جس کا اجر وثواب بلاشبہ ہمارے اساتذہ کو بھی مل رہا ہے۔
اخیر میں ملی برادران سے عاجزانہ اور مخلصانہ درخواست ہے کہ یک روزہ تربیتی اجلاس میں اپنی مصروفیات کو آگے پیچھے کرکے ضرور شریک ہوں اور اپنے درسی ساتھیوں سے ملاقات اور اپنے اساتذہ کی زیارت سے فیضیاب ہوکر اس بامقصد و تربیتی اجلاس کو ہر طرح سے کامیاب بنائیں۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اساتذہ کو ہماری طرف سے بہترین جزاء عطا فرمائے، انہیں صحت وسلامتی عطا فرمائے، ان کا سایہ تا دیر ہم پر قائم و دائم رکھے، بانی معہد ملت اور دیگر تمام مرحوم ملی فارغین کی مغفرت فرمائے۔ اس گلستاں کو تاقیام قیامت سرسبز وشاداب رکھے، اور اس سے فیض پانے والوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا رہے۔ آمین یا رب العالمین
ماشاءاللہ مفتی صاحب آپ نے حق ادا کر دیا
جواب دیںحذف کریں