سوال :
مفتی صاحب! سوشل میڈیا وغیرہ پر دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض مسلمان اپنے چھوٹے بچوں کو ہندوؤں کے بعض مذہبی پیشواؤں مثلاً کرشنا وغیرہ کا لباس پہناتے ہیں اور انہیں ٹیکہ بھی لگا دیتے ہیں اور اسے بھائی چارہ اور قومی یکجہتی کا نام دیا جاتا ہے تو کیا یہ عمل شریعت میں درست ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : انصاری محمد عابد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر کوئی مسلمان برضا ورغبت اور قلبی بشاشت کے ساتھ غیرمسلموں کا مخصوص لباس پہنے، اور ان کے مذہبی اعمال انجام دے تو وہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ اس صورت میں تجديدِ ایمان وتجديدِ نکاح کی ضرورت ہوتی ہے۔
البتہ اگر اس عمل کی عظمت دل میں نہ ہو اور دینِ اسلام کی پوری عظمت قلب میں موجود ہو تو اس پر کفر کا حکم تو نہیں ہوگا، لیکن یہ صورت بھی ناجائز اور حرام ہے۔
صورت مسئولہ میں چونکہ یہ بچے عموماً نابالغ ہوتے ہیں، جو شریعت کے احکامات کے مکلف نہیں ہیں، لہٰذا انکے گناہوں کے ذمہ دار انکے والدین ہوں گے، یا وہ لوگ ہوں گے جو ان سے یہ کام کرواتے ہیں۔ چنانچہ ان لوگوں پر لازم ہے کہ وہ آئندہ اس عمل سے باز رہنے کا عزم بالجزم کریں، اور ندامت وشرمندگی کے ساتھ توبہ واستغفار کریں، نیز انہیں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ غیرمسلموں کے ساتھ تعلقات، بھائی چارہ اور قومی یکجہتی کا مظاہرہ شرعی حدود میں ہو تب ہی اس کے بہتر نتائج ظاہر ہوں گے۔ شرعی حدود سے تجاوز اور اللہ تعالیٰ کو ناراض کرکے اگر قومی یکجہتی کی کوشش کی جائے گی تو خالق کی ناراضگی کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی بھی ناراضگی ہی ہاتھ آئے گی۔ کیونکہ کفر تو اس وقت تک آپ سے راضی نہیں ہوگا جب تک آپ اپنا دین چھوڑ کر ان کے مذہب کی پیروی نہ کرنے لگیں۔ لہٰذا اس بات کا بہت زیادہ خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔
١) کما استفید من عبارۃ الہندیۃ يَكْفُرُ بِوَضْعِ قَلَنْسُوَةِ الْمَجُوسِ عَلَى رَأْسِهِ عَلَى الصَّحِيحِ إلَّا لِضَرُورَةِ دَفْعِ الْحَرِّ وَالْبَرْدِ وَبِشَدِّ الزُّنَّارِ فِي وَسْطِهِ إلَّا إذَا فَعَلَ ذَلِكَ خَدِيعَةً فِي الْحَرْبِ وَطَلِيعَةً لِلْمُسْلِمِينَ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٢/٢٧٦)
ولو شبہ نفسہ بالیہود والنصاریٰ أی صورۃ أو سیرۃ علی طریق المزاح والہزل أي: ولوعلی ہذا المنوال کفر۔ (شرح الفقہ الأکبر،ص: ۲۲۷، ۲۲۸، فصل في الکفر صریحا وکنایۃ، یاسر ندیم- دیوبند)
وَإِنْ كَانَتْ نِيَّتُهُ الْوَجْهَ الَّذِي يُوجِبُ التَّكْفِيرَ لَا تَنْفَعُهُ فَتْوَى الْمُفْتِي، وَيُؤْمَرُ بِالتَّوْبَةِ وَالرُّجُوعِ عَنْ ذَلِكَ وَبِتَجْدِيدِ النِّكَاحِ بَيْنَهُ وَبَيْنَ امْرَأَتِهِ كَذَا فِي الْمُحِيطِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٢/٢٨٣)
٢) عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ ؛ عَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ، وَعَنِ الْمُبْتَلَى حَتَّى يَبْرَأَ، وَعَنِ الصَّبِيِّ حَتَّى يَكْبَرَ۔ (سنن ابی داؤد، رقم : ٤٣٩٨)
عن ابن عمر قال : قال رسول الله ﷺ : من تشبَّه بقوم) قال القاري أي : من شَبَّهَ نفسه بالكفار مثلًا في اللباس وغيره، أو بالفساق أو الفجار أو بأهل التصوف والصلحاء الأبرار (فهو منهم) أي: في الإثم أو الخير عند الله تعالى۔ (بذل المجہود: ۱۲/ ۵۹ باب في لبس الشہرة)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 محرم الحرام 1443
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں