سوال :
مفتی صاحب! خواتین جو مہندی کون ہاتھوں پر لگاتی ہیں وہ لال ہونے کے بعد جب چھوٹنے لگتی ہے تب وہ پرت پرت بن کر نکلتی ہے، تو کیا جب تک مہندی لگی رہتی ہے تب تک ان کا وضو نہیں ہوتا ہے؟ رہنمائی فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد آمین، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں جس مہندی کا ذکر ہے اسے غالباً کیمکل والی مہندی کہا جاتا ہے، یہ مہندی عام مہندیوں سے کچھ الگ ہوتی ہے، جس کا رنگ بڑا گہرا چڑھتا ہے، لیکن اس سے کھال پر ایسی پَرَت نہیں بنتی جو وضو اور غسل میں کھال تک پانی پہنچنے کے لئے رکاوٹ ہو۔ لہٰذا اس کے لگے رہنے سے وضو اور غسل درست ہوجائے گا۔
معلوم ہونا چاہیے کہ بالکل یہی کیفیت ووٹ دینے کے بعد لگائی جانے والی سیاہی کی بھی ہوتی ہے جو نکلنے کے وقت پرت بن کر نکلتی ہے، لیکن اس کے باوجود دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے کہ ایسی روشنائی لگی ہونے کے باوجود اس پر وضو اور غسل درست ہوجاتا ہے۔
دارالعلوم دیوبند کا فتوی ملاحظہ فرمائیں :
ووٹ دیتے وقت علامت کے طور پر انگلی پر جو روشنائی لگائی جاتی ہے، چونکہ اس میں ایسی پرت نہیں ہوتی جو کھال تک پانی پہنچنے سے مانع بنے، اس لیے اس کے لگے رہنے کی حالت میں وضو درست ہے۔ برخلاف اسکے جب آٹا لگ کر سوکھ جائے یا ناخن پالش لگی ہو؛ کیوں کہ اس میں ایسی پرت (تہ) ہوتی ہے جو پانی پہنچنے سے مانع بنتی ہے، اس لیے وضو صحیح نہیں ہوتا۔ (رقم الفتوی : 52161)
پاکستان کے انتہائی مؤقر اور معتبر ادارہ جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن کا فتوی ملاحظہ فرمائیں :
ہر قسم کی مہندی لگانا جائز ہے بشرطیکہ مہندی میں کوئی ناپاک چیز ملی ہوئی نہ ہو، مہندی لگانے کے بعد وضو اور غسل وغیرہ کا حکم یہ ہے کہ مہندی لگانے یا رنگنے سے جو رنگ لگا رہ جائے اس سے وضو اور غسل وغیرہ میں خلل نہیں آتا، البتہ اگر جمی ہوئی مہندی خشک ہوجائے اور ہاتھ پر جمی رہ گئی تو اس پر وضو صحیح نہیں ہوگا، کیونکہ وہ جسم پر پانی پہنچنے سے مانع ہوتی ہے۔ موجودہ دور میں بعض مہندیاں ایسی ہیں کہ لگانے کے بعد جب ہاتھ دھولیتے ہیں تو رنگ کے ساتھ ساتھ ایک باریک جھلی نما تہہ بن جاتی ہے اور بعد میں جب رنگ اترنے لگتا ہے تو ایک باریک تہہ چھلکا بن کر الگ ہوجاتی ہے، ایسی مہندی لگاکر وضو کرنے سے وضو ہوجائے گا، کیوں کہ وہ جسم تک پانی پہنچنے سے مانع نہیں ہوتی ہے، بشرطیکہ نفسِ مہندی کو دھو کر زائل کرلیا ہو اور صرف رنگ باقی رہ گیا ہو۔ (رقم الفتوی : 143909200694)
(ولا يمنع) الطهارة (ونيم) أي خرء ذباب وبرغوث لم يصل الماء تحته (وحناء) ولو جرمه، به يفتى۔
(قوله: به يفتى) صرح به في المنية عن الذخيرة في مسألة الحناء والطين والدرن معللاً بالضرورة. قال في شرحها: ولأن الماء ينفذه لتخلله وعدم لزوجته وصلابته، والمعتبر في جميع ذلك نفوذ الماء ووصوله إلى البدن۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين'' (رد المحتار) (1/ 154)
في فتاوى ما وراء النهر: إن بقي من موضع الوضوء قدر رأس إبرة أو لزق بأصل ظفره طين يابس أو رطب لم يجز، وإن تلطخ يده بخمير أو حناء جاز۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٤)
وفي الجامع الصغير : سئل أبو القاسم عن وافر الظفر الذي يبقى في أظفاره الدرن أو الذي يعمل عمل الطين أو المرأة التي صبغت أصبعها بالحناء، أو الصرام، أو الصباغ؟ قال: كل ذلك سواء، يجزيهم وضوءهم ؛ إذ لا يستطاع الامتناع عنه إلا بحرج، والفتوى على الجواز من غير فصل بين المدني والقروي. كذا في الذخيرة۔ وكذا الخباز إذا كان وافر الأظفار. كذا في الزاهدي ناقلاً عن الجامع الأصغر. والخضاب إذا تجسد ويبس يمنع تمام الوضوء والغسل. كذا في السراج الوهاج ناقلاً عن الوجيز''۔فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
07 محرم الحرام 1443
مفتی صاحب بالوں کو جو مہندی یا ڈائے کرتے ہیں اس کا کیا حکم ہے؟
جواب دیںحذف کریں