سوال :
مفتی صاحب کافروں کو دوست نا بنانے کے تاکید کہیں آئی ہے؟ قرآن میں یا حدیث میں؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد مکی، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قرآن کریم میں غیرمسلموں کو دوست نہ بنانے کی ممانعت متعدد جگہوں پر آئی ہے، لیکن یہ حکم مطلق نہیں ہے، بلکہ اس میں کچھ تفصیل ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ۔ (آل عمران، آیت : 28)
ترجمہ : مومن لوگ مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا یار ومددگار نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں، الا یہ کہ تم ان (کے ظلم) سے بچنے کے لیے بچاؤ کا کوئی طریقہ اختیار کرو، اور اللہ تمہیں اپنے (عذاب) سے بچاتا ہے، اور اسی کی طرف (سب کو) لوٹ کر جانا ہے۔
”یار و مددگار“ عربی لفظ ”ولی“ کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ ”ولی“ بنانے کو ”موالات“ بھی کہا جاتا ہے۔ اس سے مراد ایسی دوستی اور قلبی محبت کا تعلق ہے جس کے نتیجے میں دو آدمیوں کا مقصد زندگی اور ان کا نفع ونقصان ایک ہوجائے، اس قسم کا تعلق مسلمان کا صرف مسلمان ہی سے ہوسکتا ہے اور کسی غیر مسلم سے ایسا تعلق رکھنا سخت گناہ ہے اور اس آیت میں اسے سختی سے منع کیا گیا ہے، یہی حکم سورة نساء (٤: ١٣٩) سورة مائدہ (٥: ٥١) سورة توبہ (٩: ٢٣) سورة مجادلہ (٢٨: ٢٢) اور سورة ممتحنہ (٢٨: ١) میں بھی دیا گیا ہے، البتہ جو غیر مسلم جنگ کی حالت میں نہ ہوں ان کے ساتھ حسن سلوک، رواداری اور خیر خواہی کا معاملہ نہ صرف جائز بلکہ مطلوب ہے، جیسا کے خود قرآن کریم نے سورة ممتحنہ (٢٨: ٨) میں واضح فرمادیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پوری حیات طیبہ میں یہ رہی ہے کہ آپ نے ہمیشہ ایسے لوگوں کے ساتھ احسان کا معاملہ فرمایا، اسی طرح ان کے ساتھ سیاسی اوراقتصادی تعاون کے وہ معاہدہ اور تجارتی معاملات بھی کئے جاسکتے ہیں جن کو آج کل کی سیاسی اصطلاح میں دوستی کے معاہدے کہا جاتا ہے، بشرطیکہ یہ معاہدے یا معاملات اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کے خلاف نہ ہوں اور ان میں کسی خلاف شرع عمل کا ارتکاب لازم نہ آئے، چناچہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اور آپ کے بعد صحابہ کرام نے ایسے معاہدات اور معاملات کیے ہیں ، غیر مسلموں کے ساتھ موالات کی ممانعت کرنے کے بعد قرآن کریم نے جو فرمایا ہے کہ : الا یہ کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لئے بچاؤ کا کوئی طریقہ احتیار کرو، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کفار کے ظلم وتشدد سے بچاؤ کے لئے کوئی ایسا طریقہ اختیار کرنا پڑے جس سے بظاہرموالات معلوم ہوتی ہو تو اس کی گنجائش ہے۔ (توضیح القرآن)
دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
ظاہری خوش خلقی، ہمدردی، خیرخواہی، نفع رسانی اور باہمی لین دین کی حد تک کافروں اور غیرمسلموں سے تعلقات رکھنا جائز اور درست ہے، لیکن دلی دوستی اور قلبی محبت وتعلق ایمان والے کے علاوہ کسی سے بھی جائز نہیں، ناجائز وحرام ہے حرام ہے۔ (رقم الفتوی : 38649)
قال اللہ تعالیٰ : لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکَافِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ“ (سورہٴ آل عمران، آیت: ۲۸)
وقال تعالیٰ: ”یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّْیْ وَعَدُوَّکُمْ اَوْلِیَآءَ تُلْقُوْنَ اِلَیْہِمْ بِالْمَوَدَّةِ“ (سورہٴ ممتحنہ، آیت: ۱)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 محرم الحرام 1443
جزاکم اللہ
جواب دیںحذف کریںشکریہ محترم مفتی صاحب ۔۔اللہ تعالیٰ آپکے علم میں برکت عطا فرمائے ۔
جواب دیںحذف کریںAssalamualaikum
جواب دیںحذف کریں