سوال :
محترم مفتی صاحب! ایک صاحب نے ایک مضمون (آپ کو یہ مضمون ارسال کیا ہوں) اخبارات میں دیا ہے جس میں یہ حدیث بیان کی گئی ہے کہ حضورِ اقدس ﷺ کے زمانے میں ایک شخص اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کرتا تھا اور اسی بکری سے خود بھی کھاتا اور دوسروں کو بھی کھلاتا تھا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پورے گھر والوں کی طرف سے ایک قربانی کی جا سکتی ہے، حنفی مسلک کیا ہے؟ اور کیا باقی ائمہ کرام میں سے یہ کسی کا مسلک ہے؟ براہ کرم اس مسئلہ میں مفصل اور مدلل رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد حامد/ہشیم الرحمن، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : آپ کے ارسال کردہ مضمون کا بغور مطالعہ کیا گیا جس سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوئی کہ مضمون نگار کے سامنے سوائے اس روایت کے اور کوئی حدیث نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے صرف اسی روایت کی بنیاد پر پورا مضمون لکھ دیا اور علماء کرام پر معاذ اللہ حدیث شریف کو چھپانے کا الزام بھی لگا دیا۔ اور یہ ایسا سمجھ رہے جیسے علماء مسائل اپنے گھر سے بیان کرتے ہیں جبکہ اس مسئلہ پر احناف کے پاس متعدد احادیث موجود ہیں، اور جس روایت کی یہ بات کررہے ہیں وہ عوام کے درمیان بھی مشہور ہے اور موجودہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے دور میں تو اب کوئی بھی بات کسی سے پوشیدہ نہیں رہی۔ تھوڑی سی دلچسپی اور جستجو سے سب کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے، یہ تو آدمی کی اپنی کوتاہی ہے کہ وہ آسانیوں کے اس دور میں بھی ایسی موٹی موٹی باتوں سے ناواقف ہے۔
اب آتے ہیں اس مضمون اور سوال نامہ میں ذکر کی گئی حدیث شریف کی طرف جس میں بیان کیا گیا ہے کہ حضورِ اقدس ﷺ کے زمانے میں ایک شخص اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کرتا تھا اور اسی بکری سے خود بھی کھاتا اور دوسروں کو بھی کھلاتا تھا۔
بلاشبہ یہ روایت درست ہے، اور ترمذی شریف سمیت حدیث کی متعدد کتابوں میں مذکور ہے۔ چنانچہ اس حدیث کی بناء پر امام مالک رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ یہ فرماتے ہیں کہ ایک بکری ایک آدمی کے پورے گھر والوں کی طرف سے کافی ہے، حتیٰ کہ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر ایک گھر میں کئی صاحب نصاب افراد ہوں تو ان میں سے ہر ایک کی طرف سے قربانی کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ اگر ایک بکری کی قربانی کردی جائے تو سب کی طرف سے کافی ہوجائے گی، بشرطیکہ وہ سب آپس میں رشتہ دار ہوں اور ایک ہی گھر میں رہتے ہوں۔
جبکہ احناف اور شوافع کا مسلک یہ ہے کہ قربانی ہر صاحب نصاب فرد پر واجب ہے، لہٰذا گھر میں متعدد افراد ہوں تو سب کی طرف سے الگ الگ قربانی کرنا واجب ہوگا، سب کی طرف سے ایک قربانی کافی نہیں ہوگی۔ چنانچہ حنفیہ مذکورہ بالا روایت کے متعدد معنی بیان کرتے ہیں، جنہیں ہم بالترتيب ذیل میں بیان کررہے ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ حدیث ثواب میں شرکت پر محمول ہے، یعنی اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر کوئی آدمی اپنی طرف سے ایک بکری کی قربانی کرے اور اس کے ثواب میں اپنے ساتھ سارے گھر والوں کو شریک کرلے تو یہ جائز ہے، اس کی مثال یہ ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مینڈھا اپنی طرف سے قربان فرمایا اور دوسرا مینڈھا قربان کر کے فرمایا : "هَذَا عَنِّي وَعَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ مِنْ أُمَّتِي" یعنی میں یہ قربانی اپنی امت کے ان لوگوں کی طرف سے کر رہا ہوں جو قربانی نہ کرسکیں۔ (مسند احمد، ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ، دارمی) لہٰذا جس طرح اس حدیث سے یہ مطلب لینا قطعاً درست نہیں ہوگا کہ چونکہ آپ ﷺ نے اپنی امت کی طرف سے ایک مینڈھا قربان فرمادیا؛ اس لیے اب امت کے ذمے سے قربانی ساقط ہوگئی، بلکہ مطلب یہ ہوگا کہ آپﷺ نے ثواب میں ساری امت کو اپنے ساتھ شریک کرلیا۔ اسی طرح سوال نامہ میں مذکور حدیث سے بھی یہ مطلب لینا درست نہیں کہ ایک صاحب نصاب آدمی ایک بکری کی قربانی اپنی طرف سے اور گھر کے دیگر صاحب نصاب افراد کی طرف سے کرتا تھا اور سب کے ذمہ سے واجب قربانی ساقط ہوجاتی تھی، بلکہ حدیث شریف کا صحیح مطلب یہ ہے کہ حضور ﷺ کے زمانہ میں غربت عام ہونے کی وجہ سے بعض اوقات ایک گھر کے اندر ایک ہی شخص صاحبِ نصاب ہوتا تھا، اس وجہ سے پورے گھر میں ایک ہی شخص کے ذمہ قربانی واجب ہوتی تھی، باقی لوگوں کے ذمہ صاحبِ نصاب نہ ہونے کی وجہ سے قربانی واجب ہی نہ ہوتی تھی، اس لیے پورے گھر میں سے صرف ایک ہی آدمی قربانی کیا کرتا تھا، اور قربانی ملتِ ابراہیمی کی ایسی یادگار اور عظیم سنت ہے کہ ہر شخص کا جذبہ اس پر عمل کرنے کا ہوتا ہے، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہر نیکی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے والے تھے، ان میں سے ہر شخص صاحبِ نصاب نہ ہونے کے باوجود قربانی کی کوشش کرتا، اس لیے بتادیا گیا کہ گھر میں اگر ایک فرد صاحبِ حیثیت ہے تو صرف وہی قربانی کرے، اور اپنے گھر کے تمام افراد کو اس قربانی کے ثواب میں شریک کرلے۔
دوسرے یہ کہ جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص صاحبِ حیثیت ہونے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے۔ (ابن ماجہ) اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر صاحبِ نصاب پر مستقل علیحدہ قربانی کرنا واجب ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ قربانی ایک عبادت ہے، لہٰذا دیگر عبادات (نماز ، روزہ، حج، زکوٰۃ) کی طرح قربانی بھی ہر مکلف کے ذمہ الگ الگ واجب ہوگی۔ اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کا عمل مبارک بھی یہ تھا کہ آپ ﷺ اپنی قربانی الگ فرمایا کرتے تھے اور ازواجِ مطہرات کی طرف سے الگ قربانی فرمایا کرتے تھے، اور آپ ﷺ کی صاحب زادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی قربانی مستقل طور پر ہوتی تھی، چنانچہ اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ ایک قربانی سارے گھر والوں کی طرف سے کافی نہیں ہے۔
تیسری توجیہ یہ ہے کہ اگر ایک بکری پورے گھر والوں کی طرف سے کافی ہوتی تو جن حدیثوں میں بڑے جانور (گائے، اونٹ، وغیرہ) کو سات کی طرف سے متعین کیا گیا ہے، جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک اونٹ ذبح کیا سات لوگوں کی طرف سے اور گائے ذبح کی سات لوگوں کی طرف سے۔ (ترمذی) اس حدیث کے کیا معنی ہوں گے؟ کیونکہ نصوص کی روشنی میں اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ ایک بکری گائے کے ساتویں حصے کے برابر ہے، لہٰذا اگر ایک گائے میں آٹھ آدمی شریک ہوجائیں تو حدیث شریف میں بیان کی گئی حد (ایک اونٹ یا گائے میں سات افراد شریک ہوتے تھے) سے تجاوز کرنے کی وجہ سے کسی کی بھی قربانی درست نہیں ہوگی، ورنہ تحدید بے کار ہو جائے گی، جبکہ اگر ایک گھر میں مثلاً دس افراد صاحبِ نصاب ہوں تب بھی ایک بکری گھر کے تمام دس افراد کی طرف سے کافی ہوجائے اور سب کی قربانی ادا ہو جائے تو یہ بات سمجھ سے بالکل بالاتر ہے کہ ایک بکری تو دس افراد کی طرف سے کافی ہو جائے اور ایک گائے آٹھ افراد کی طرف سے کافی نہ ہو، اور اگر یہ کہا جائے کہ گائے کا ساتواں حصہ سارے گھر والوں کی طرف سے کافی ہوجائے گا تو پھر تو ایک گائے کے اندر صرف سات افراد نہیں بلکہ ساٹھ ستر افراد کی قربانی ہو سکے گی جو کہ واضح طور پر اوپر بیان کی گئی حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت کے خلاف ہے۔
درج بالا دلائل سے یہ مسئلہ بالکل واضح ہوگیا ہے کہ گھر میں متعدد صاحبِ نصاب افراد ہونے کی صورت میں تمام گھر والوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کرنا کافی نہیں ہے، بلکہ گھر کے ہر صاحبِ نصاب فرد پر اپنی اپنی قربانی کرنا واجب اور لازم ہے، گھر کے کسی ایک فرد کے قربانی کرنے سے باقی افراد کے ذمہ سے واجب قربانی ساقط نہیں ہوگی۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ساتھ امام شافعی رحمہ اللہ کا بھی یہی مسلک ہے۔ اور آپ کا ارسال کردہ مضمون محرر کے ناقص علم پر دلالت کرتا ہے، انہیں چاہیے کہ کسی بھی مسئلہ پر ہر طرف کے دلائل کا مکمل طور پر مطالعہ کرلیں اس کے بعد قلم اٹھائیں ورنہ حدیث شریف میں بیان کی گئی وعید کے مستحق ہوں گے کہ قُرب قیامت میں ایسے لوگ آئیں گے جو بغیر علم کے مسئلہ بیان کریں گے، لہٰذا وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ محرر اس مسئلہ پر نظر ثانی کرنے کے بعد علماء کرام پر لگائے گئے الزامات کا ازالہ کریں گے اور اس مسئلہ سے رجوع فرمائیں گے۔
حدثنا قتيبة قال : حدثنا مالك بن أنس، عن أبي الزبير، عن جابر قال: «نحرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بالحديبية البدنة عن سبعة، والبقرة عن سبعة». هذا حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، وهو قول سفيان الثوري، [ص:90] وابن المبارك، والشافعي، وأحمد۔ (سنن الترمذي : 4/ 89)
حدثنا يحيى بن موسى قال: حدثنا أبو بكر الحنفي قال: حدثنا الضحاك بن عثمان قال: حدثني عمارة بن عبد الله قال: سمعت عطاء بن يسار يقول: سألت أبا أيوب الأنصاري: كيف كانت الضحايا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال: «كان الرجل يضحي بالشاة عنه وعن أهل بيته، فيأكلون ويطعمون حتى تباهى الناس، فصارت كما ترى». هذا حديث حسن صحيح، وعمارة بن عبد الله مديني، وقد روى عنه مالك بن أنس، والعمل على هذا عند بعض أهل العلم، وهو قول أحمد، وإسحاق، واحتجا بحديث النبي صلى الله عليه وسلم أنه ضحى بكبش، فقال: «هذا عمن لم يضح من أمتي». وقال بعض أهل العلم: لا تجزي الشاة إلاعن نفس واحدة، وهو قول عبد الله بن المبارك، وغيره من أهل العلم۔ (سنن الترمذي : 4/ 91)
عن جابر بن عبد الله قال: شهدت مع النبي صلى الله عليه وسلم الأضحى بالمصلى، فلما قضى خطبته نزل عن منبره، فأتي بكبش، فذبحه رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده، وقال: بسم الله، والله أكبر، هذا عني وعمن لم يضح من أمتي۔ (سنن الترمذي : 4/ 100)
"عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من كان له سعة، ولم يضح، فلا يقربن مصلانا۔ (سنن ابن ماجه : 2/ 1044)
عن ابن عباس، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر، فحضر الأضحى، فاشتركنا في الجزور، عن عشرة، والبقرة، عن سبعة۔ (سنن ابن ماجه : 2/ 1047)
عن أبي هريرة، قال: ذبح رسول الله صلى الله عليه وسلم، عمن اعتمر من نسائه في حجة الوداع بقرة بينهن۔ (سنن ابن ماجه : 2/ 1047)
مستفاد : دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر : 144112201016)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
26 ذی القعدہ 1442
جَــــــــزَاک الــلّٰــهُ خَـــــيْراً
جواب دیںحذف کریںشکراً جزاک اللہ خیرا
جواب دیںحذف کریںجزاکم اللہ خیراً کثیرا
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیرا
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیر اللہ سبحانہ وتعالی آپ کے علم میں برکت عطا فرمائے آمین
جواب دیںحذف کریںماشاء اللہ، قربانی کے بارے میں واجب اور ثواب میں شرکت کا مسئلہ مکمل طور پر واضح کر دیا ہے آپ نے.
جواب دیںحذف کریںاب کوئی بھی شکوک و شبہات باقی نہیں رہا ہے جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء. ڈاکٹر مختار احمد انصاری
ماشاء اللہ محترم... بڑے آسان انداز میں آپ نے دلائل کے ساتھ بات کو واضح کیا...
جواب دیںحذف کریں