سوال :
محترم مفتی صاحب! علامتی قربانی کے بارے میں بہت سے لوگ پوچھ رہے ہیں کہ یہ علامتی قربانی کیا ہے؟ اس کا شرعی حکم کیا ہے؟ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد شاداب/ مجتبی ثاقب، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مہاراشٹر حکومت نے امسال عیدالاضحیٰ کے موقع پر وبائی مرض کے پیشِ نظر جو گائیڈ لائن جاری کی ہے اس میں مختلف ہدایات کے ساتھ یہ اپیل بھی کی گئی ہے کہ مسلمان علامتی قربانی کریں۔ لیکن اس گائیڈ لائن میں علامتی قربانی کا کوئی طریقہ یا خاکہ نہیں پیش کیا گیا ہے۔ چنانچہ اس لفظ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ علامتی قربانی کے مختلف مطالب ہوسکتے ہیں مثلاً قربانی کرنے والا مسلمان جانور کی تصویر سامنے رکھ کر اس کی گردن پر چُھری چلا دے یا پھر ہاتھ میں چُھری لے کر تصور میں قربانی کے جانور کو ذبح کردے۔ یا یہ سب کرنے کے بجائے لوگوں سے کہہ دے کہ میں نے دل ہی دل میں قربانی کرلی ہے۔
خیر علامتی قربانی کے معنی بہرحال یہی ہیں کہ قربانی کے ایام میں مسلمان جو متعینہ جانوروں کو اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لیے اس کے حکم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق ذبح کرتے ہیں، یہ نہ کرتے ہوئے اس کے بجائے کوئی اور طریقہ اختیار کریں اور جانوروں کی قربانی نہ کریں۔
معلوم ہونا چاہیے کہ علامتی قربانی کی مسلمانوں کے یہاں کوئی گنجائش نہیں ہے، کیونکہ قربانی کے ایام میں دیگر عبادات کے مقابلہ میں قربانی کا عمل اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند ہے، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد ہے کہ قربانی کے دن میں کوئی عمل اللہ تعالیٰ کو خون بہانے سے زیادہ پسندیدہ نہیں ہے اور یہ قربانی کا جانور قیامت کے میدان میں اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا، اور قربانی میں بہایا جانے والا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے دربار میں قبولیت کا مقام حاصل کرلیتا ہے، لہٰذا خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔ (١) یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی صاحبِ نصاب قربانی کے ایام میں قربانی کرنے کے بجائے اس کی رقم صدقہ کردے تو یہ اس کے لیے کافی نہ ہوگا اور وہ ترکِ واجب کی وجہ سے گناہ گار ہوگا۔
نیز مسلمانوں کے اس مذہبی عمل میں مداخلت صرف مذہب میں مداخلت نہیں ہے بلکہ قدرت کے ساتھ بھی چھیڑ چھاڑ ہے، کیونکہ یہ عمل آج سے نہیں بلکہ دنیا جب سے بنی ہے تب سے انجام دیا جارہا ہے، اور مخصوص جانوروں کا گوشت کھانا یہ انسانی فطرت ہے۔ اس پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔ لہٰذا مسلمانوں کو علامتی قربانی جیسے عجیب وغریب مشورہ پر کان دھرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ خوش دلی کے ساتھ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے معمول کے مطابق قربانی جیسا اہم فریضہ ادا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
١) قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَا عَمِلَ آدْمِیٌّ مِنْ عَمَلٍ یَوْمَ النَّحْرِ اَحَبَّ اِلَی اللّٰہِ مِنْ اِہْرَاقِ الدَّمِ فَاِنَّہٗ لَتَأْتِیْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فِیْ فَرْشِہٖ بِقُرُوْنِہَا وَاَشْعَارِہَا وَاَظْلاَفِہَا وَاِنَّ الدَّمَ لَیَقَعُ مِنَ اللّٰہِ قَبْلَ اَنْ یَّقَعَ مِنَ الْاَرْضِ فَطَیِّبُوْا بِہَا نَفْساً۔ (سنن ابن ماجہ: ۳۱۲۶، ترمذی : ۱۴۹۳)
عن علي رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا طاعۃ في معصیۃ اللّٰہ، إنما الطاعۃ في المعروف۔ (صحیح مسلم / باب وجوب طاعۃ الأمراء في غیر معصیۃ وتحریمہا في معصیۃ، ۲؍۱۲۵)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 ذی القعدہ 1442
ماشاءاللہ
جواب دیںحذف کریںالسلام علیکم مفتی صاحب جو ھم آنلائن پیسہ کماتے ھے وہ حلال ھے یا پھر حرام ؟
جواب دیںحذف کریںجیسے ایک آتا ھے کہ ایک یوٹیوب کی ویڈیو لائک کرنے پر ٧ روپیہ ملتا ھے تو یہ پیسے کو ھم کھاں استعمال کرے