سوال :
مفتی صاحب! زید اور اس کے بہنوئی کی بحث ہوگئی اور زید کے بہنوئی نے غصے میں آکر زید سے کہہ دیا اگر میرے گھر پر قدم رکھا تو تیری بہن کو تین طلاق۔ اس بات کو ایک سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا زید کو یہ بات یاد ہے مگر اس کا بہنوئی بھول گیا اور اب زید کا بہنوئی زید کی بہن کو کہ رہا کے بہت دن ہوگئے زید گھر نہیں آیا کیا بات ہے؟ اور ایک بات یہ کہ زید کی بہن اسکے پھوپھو کے پاس ہی دی ہوئی ہے اور زید کی پھوپھو بھی کہہ رہی ہے کیا بات زید گھر نہیں آرہا ہے؟ زید اب پریشان ہے کیا کرے؟ اگر بہن کے گھر گیا تو بہن طلاق ہوجائے گی اور یہ بات صرف زید کے علم میں ہے۔ مفتی صاحب مسئلہ کا حل بتائیں زید کیا کرے؟
(المستفتی : حافظ عمران، اورنگ آباد)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : طلاق کو جب کسی شرط کے ساتھ معلق کیا جائے تو شرط پائے جانے کی صورت میں طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں زید جب بھی اپنے بہنوئی کے گھر میں قدم رکھے گا اس کی بہن پر تین طلاق واقع ہوجائیں گی۔ البتہ ایسی صورت میں تین طلاق سے بچنے کے لیے یہ تدبیر اختیار کی جاسکتی ہے کہ زید کا بہنوئی اپنی بیوی کو ایک طلاق بائن دیدے (یعنی میں تجھے ایک طلاق بائن دیتا ہوں ایسا کہہ کر اپنے نکاح سے خارج کر دے) پھر جب عدت مکمل ہوجائے یعنی اس کی بیوی حاملہ نہ ہوتو تین ماہواری گزر جائے اور اگر حاملہ ہوتو وضع حمل اور ڈیلیوری ہوجائے۔ اس کے بعد زید کی بہن اس کے بہنوئی کے لیے اجنبیہ بن جائے گی اور نکاح کے تمام احکام ختم ہوجائیں گے۔ اب زید اپنے بہنوئی کے گھر جو اس کی پھوپھی کا گھر بھی ہے اس میں چلا جائے۔ اب جبکہ زید کی بہن اس کے بہنوئی کے نکاح میں نہیں ہے تو طلاق غیرمؤثر رہے گی اور ایک مرتبہ گھر میں قدم رکھنے کے بعد شرط پوری ہوجائے گی۔ لہٰذا زید کا بہنوئی جب دوبارہ اس کی بہن سے نکاح کرے گا تو اب زید کے اس کے بہنوئی کے گھر آنے جانے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، کیونکہ شرط پہلے ہی پوری ہوچکی ہے۔
ملحوظ رہنا چاہیے کہ یہ تدبیر اس وقت کام کرے گی جب زید کے بہنوئی نے اس سے پہلے دو طلاق نہ دی ہو۔ اگر زید کا بہنوئی پہلے ہی دو طلاق دے چکا ہوتو پھر تین طلاق سے بچنے کی یہی صورت ہوسکتی ہے کہ زید اپنے بہنوئی کے گھر نہ جائے۔
فِي نَوَادِرِ ابْنِ سِمَاعَةَ عَنْ مُحَمَّدٍ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى إذَا شَكَّ فِي أَنَّهُ طَلَّقَ وَاحِدَةً أَوْ ثَلَاثًا فَهِيَ وَاحِدَةٌ حَتَّى يَسْتَيْقِنَ أَوْ يَكُونَ أَكْبَرُ ظَنِّهِ عَلَى خِلَافِهِ فَإِنْ قَالَ الزَّوْجُ: عَزَمْت عَلَى أَنَّهَا ثَلَاثٌ أَوْ هِيَ عِنْدِي عَلَى أَنَّهَا ثَلَاثٌ، أَضَعُ الْأَمْرَ عَلَى أَشَدِّهِ فَأَخْبَرَهُ عُدُولٌ حَضَرُوا ذَلِكَ الْمَجْلِسَ وَقَالُوا كَانَتْ وَاحِدَةً قَالَ إذَا كَانُوا عُدُولًا أُصَدِّقُهُمْ وَآخُذُ بِقَوْلِهِمْ كَذَا فِي الذَّخِيرَةِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٣٦٣)
إذَا حَلَفَ بِثَلَاثِ تَطْلِيقَاتٍ أَنْ لَا يُكَلِّمَ فُلَانًا فَالسَّبِيلُ أَنْ يُطَلِّقَهَا وَاحِدَةً بَائِنَةً وَيَدَعَهَا حَتَّى تَنْقَضِيَ عِدَّتُهَا، ثُمَّ يُكَلِّمَ فُلَانًا، ثُمَّ يَتَزَوَّجَهَا كَذَا فِي السِّرَاجِيَّةِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٦/٣٩٧)
فَحِيلَةُ مَنْ عَلَّقَ الثَّلَاثَ بِدُخُولِ الدَّارِ أَنْ يُطَلِّقَهَا وَاحِدَةً ثُمَّ بَعْدَ الْعِدَّةِ تَدْخُلُهَا فَتَنْحَلُّ الْيَمِينُ فَيَنْكِحُهَا۔ (شامی : ٣/٣٥٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
16 ذی الحجہ 1442
جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء
جواب دیںحذف کریںواہ واہ ماشإ اللہ
جواب دیںحذف کریںکیا مسٕلے کا حل بتایا ھےٕ۔!!
واقعی۔👍👍👍
🌷🌷🌷
جواب دیںحذف کریں