سوال :
مفتی صاحب! امسال ہمارے یہاں جانوروں کی کھال کی کوئی قیمت نہیں مل رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ بعض لوگوں نے اسے پھینک دیا ہے یا پھر بہت سے لوگوں نے اسے جمیعت علماء میں دے دیا ہے۔ لیکن چونکہ علماء کرام کی طرف سے یہ اپیل آئی تھی کہ کھالوں کی قیمت بالکل ختم ہوچکی ہے اس لیے اب نقد رقومات سے مدارس کا تعاون کیا جائے، پوچھنا یہ تھا کہ اب اگر ہم اپنی طرف سے کچھ رقم مدارس میں دیں گے تو اسے کس مَد میں لکھوایا جائے؟ اسے چرم قربانی کہا جائے یا عطیہ؟ براہ کرم تفصیل سے جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : محمد صادق، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قربانی کے جانور کی کھال بذات خود استعمال کی جاسکتی ہے یا کسی کو ہدیہ بھی دی جاسکتی ہے۔ لیکن جب اسے فروخت کردیا جائے تو اُس کی رقم صدقہ واجبہ بن جاتی ہے، یعنی اس رقم کا صدقہ کرنا ضروری ہوتا ہے، اور اس رقم کا مصرف وہی ہے جو زکوٰۃ کا مصرف ہے۔
صورتِ مسئولہ میں جبکہ کھال فروخت نہیں کی گئی ہے، بلکہ پھینک دی گئی ہے یا کسی ادارہ کو دے دی گئی ہے اور اب آپ اپنی طرف سے مزید کچھ رقم دینا چاہتے ہیں تو یہ چرم قربانی کی مَد نہیں ہوگی بلکہ یہ رقم عطیہ کہلائے گی، لہٰذا اس رقم کو مستحقین زکوٰۃ کو یا ایسے مدارس میں دینا ضروری نہیں ہے جہاں زکوٰۃ کا مصرف ہو۔ بلکہ یہ رقم مدارس ومکاتب اور مساجد جہاں بھی آپ دینا چاہیں دے سکتے ہیں۔
نوٹ : قیام وطعام والے مدارس کے مالی حالات چونکہ دن بدن انتہائی سنگین ہوتے جارہے ہیں، لہٰذا ان کو ہی ترجیح دینا چاہیے۔
ولا بَأْسَ بِأنْ يَشْتَرِيَ بِهِ ما يَنْتَفِعُ بِعَيْنِهِ فِي البَيْتِ مَعَ بَقائِهِ اسْتِحْسانًا۔ (فتح القدیر : ۸/۴۳۶)
وَيَتَصَدَّقُ بِجِلْدِهَا، أَوْ يَعْمَلُ مِنْهُ نَحْوَ غِرْبَالٍ، أَوْ جِرَابٍ۔ (البحر الرائق : ٨/٢٠٣)
أخرج أحمد في مسندہ حدیثًا طویلاً طرفہ ہٰذا : وَلَا تَبِيعُوا لُحُومَ الْهَدْيِ وَالْأَضَاحِيِّ فَكُلُوا وَتَصَدَّقُوا وَاسْتَمْتِعُوا بِجُلُودِهَا وَلَا تَبِيعُوهَا وَإِنْ أُطْعِمْتُمْ مِنْ لَحْمِهَا فَكُلُوا إِنْ شِئْتُمْ۔ (المسند للإمام أحمد بن حنبل ۴؍۱۵ رقم: ۱۶۳۱۲)
(فَإِنْ) (بِيعَ اللَّحْمُ أَوْ الْجِلْدُ بِهِ) أَيْ بِمُسْتَهْلَكٍ (أَوْ بِدَرَاهِمَ) (تَصَدَّقَ بِثَمَنِهِ)۔ (شامی : ٦/٣٢٨)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
14 ذی الحجہ 1442
جزاکم اللہ خیراً کثیرا
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیرا کثیرا مفتی صاحب
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیرا احسن الجزاء فی الدارین۔ عبدالشکور پربھنی مہاراشٹر
جواب دیںحذف کریںجزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء
جواب دیںحذف کریں