سوال :
1) موت ہونے کے بعد میّت کے گھر میں تین دن تک چولہا نہیں جلتا کیا ایسا کرناصحیح ہے؟
2) مندرجہ بالا ایّام میں گھر کے تمام مرد مل کر میّت کی قبر پر فاتحہ کرنے جاتے ہیں جو لازم خیال کیا جاتا ہے کیا یہ عمل ٹھیک ہے؟
3) میّت کا سوگ کتنے دن اور کیسے ہونا چاہیے؟
برائے مہربانی ان تمام سوالوں کے جواب تفصیل سے قرآن و حدیث کی روشنی میں دیجیے۔
(المستفتی : عبداللہ قریشی، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : شریعتِ مطہرہ میں ایسا کوئی حکم نہیں ہے کہ میت کے گھر میں تین دن تک چولہا نہ جلایا جائے۔ میت کے گھر والوں کو چونکہ رنج وغم اور تجہیز و تکفین کی مشغولیت کی وجہ سے کھانا پکانے کا موقع نہیں ملتا، اس لئے میت کے پڑوسیوں اور رشتے داروں کے لیے مستحب ہے کہ وہ میت کے گھر والوں کے لیے دو تین وقت کے کھانے کا انتظام کریں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچازاد بھائی حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی شہادت کے موقع پر بھی لوگوں کو یہی حکم فرمایا تھا کہ جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو، اگر میّت کے گھر والے خود کھانا پکانے کا انتظام کرلیں، تو یہ بھی جائز ہے۔ لہٰذا یہ سمجھنا کہ میت کے گھر تین دن چولہا نہیں جلانا چاہیے اور اسے عیب یا گناہ کا کام سمجھنا بالکل غلط عقیدہ ہے، اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ ایسے عقیدہ کا ترک کرنا ضروری ہے۔
قبروں کی زیارت اور میت کے ایصالِ ثواب کے لیے کوئی دن مخصوص نہیں ہے۔ جس وقت بھی فرصت ہو قبروں کی زیارت اور مرحومین کے ایصالِ ثواب کے لیے قبرستان جا سکتے ہیں، لہٰذا کسی مخصوص دن قبرستان جانے اور ایصالِ ثواب کو ضروری سمجھنا دین میں زیادتی ہے جو بدعت اور گناہ ہے۔
بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ جب ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے پاس ان کے والد کے انتقال کی خبر آئی تو انہوں نے خوشبو منگوا کر دونوں ہاتھوں پر ملی اور کہا کہ مجھے خوشبو کی کوئی حاجت نہ تھی اگر میں آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے نہ سنتی کہ کسی عورت کے لئے جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہو یہ جائز نہیں ہے کہ سوائے شوہر کے کسی پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے مگر شوہر کا سوگ چار مہینے دس دن تک منائے۔
معلوم ہوا کہ میت کی بیوہ کے لیے تو چار مہینہ دس دن تک سوگ منانے کا حکم ہے، لیکن میت کے بقیہ رشتہ داروں کے لیے تین دن سے زیادہ سوگ منانے کی اجازت نہیں ہے۔ سوگ میں یہ ہوسکتا ہے کہ میت کی بیوہ کے علاوہ بقیہ رشتہ دار عورتیں مثلاً میت کی ماں، بہنیں اور بیٹیاں بناؤ سنگھار تین دن تک چھوڑ سکتی ہیں بشرطیکہ شوہر کی طرف سے ممانعت نہ ہو اگر شوہر کی طرف ممانعت ہوتو اس کی بھی اجازت نہیں ہے۔ میت کے انتہائی قریبی رشتہ دار مَردوں کے لئے سوگ یہ ہوسکتا ہے کہ اگر انہیں بہت زیادہ غم ہو اور ان کی ملازمت یا کاروبار سے کسی اور کو کوئی نقصان نہ ہوتو تین دن تک یہ لوگ چھٹی کرسکتے ہیں۔ اور ان ایام میں وہ میت کے لیے زیادہ سے زیادہ دعائے مغفرت اور ایصالِ ثواب کی کوشش کریں، آواز سے رونا، کپڑے پھاڑنا، بالوں کو نوچنا، سینہ کوبی اور شکوے شکایت کرنا یہ جاہلیت کی علامت ہے، یہ چیزیں سوگ میں داخل نہیں ہیں، بلکہ ناجائز اور گناہ کی بات ہے۔ لہٰذا ان چیزوں سے بہرحال بچنا ضروری ہے۔
وعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ قالَ: «لَمّا جاءَ نَعْيُ جَعْفَرٍ قالَ النَّبِيُّ ﷺ: «اصْنَعُوا لِآلِ جَعْفَرٍ طَعامًا، فَقَدْ أتاهُمْ ما يَشْغَلُهُمْ» رَواهُ التِّرْمِذِيُّ، وأبُو داوُدَ، وابْنُ ماجَهْ
والمَعْنى جاءَهُمْ ما يَمْنَعُهُمْ مِنَ الحُزْنِ عَنْ تَهْيِئَةِ الطَّعامِ لِأنْفُسِهِمْ، فَيَحْصُلُ لَهُمُ الضَّرَرُ وهُمْ لا يَشْعُرُونَ. قالَ الطِّيبِيُّ: دَلَّ عَلى أنَّهُ يُسْتَحَبُّ لِلْأقارِبِ والجِيرانِ تَهْيِئَةُ طَعامٍ لِأهْلِ المَيِّتِ اهـ. والمُرادُ طَعامٌ يُشْبِعُهُمْ يَوْمَهُمْ ولَيْلَتَهُمْ، فَإنَّ الغالِبَ أنَّ الحُزْنَ الشّاغِلَ عَنْ تَناوُلِ الطَّعامِ لا يَسْتَمِرُّ أكْثَرَ مِن يَوْمٍ، وقِيلَ: يُحْمَلُ لَهُمْ طَعامٌ إلى ثَلاثَةِ أيّامٍ مُدَّةَ التَّعْزِيَةِ، ثُمَّ إذا صُنِعَ لَهُمْ ما ذَكَرَ مِن أنْ يُلِحَّ عَلَيْهِمْ فِي الأكْلِ لِئَلّا يَضْعُفُوا بِتَرْكِهِ اسْتِحْياءً، أوْ لِفَرْطِ جَزَعٍ، واصْطِناعُهُ مِن بَعِيدٍ أوْ قَرِيبٍ لِلنّائِحاتِ شَدِيدُ التَّحْرِيمِ؛ لِأنَّهُ إعانَةٌ عَلى المَعْصِيَةِ، واصْطِناعُ أهْلِ البَيْتِ لَهُ لِأجْلِ اجْتِماعِ النّاسِ عَلَيْهِ بِدْعَةٌ مَكْرُوهَةٌ، بَلْ صَحَّ عَنْ جَرِيرٍ : كُنّا نَعُدُّهُ مِنَ النِّياحَةِ، وهُوَ ظاهِرٌ فِي التَّحْرِيمِ. قالَ الغَزالِيُّ: ويُكْرَهُ الأكْلُ مِنهُ، قُلْتُ: وهَذا إذا لَمْ يَكُنْ مِن مالِ اليَتِيمِ أوِ الغائِبِ، وإلّا فَهُوَ حَرامٌ بِلا خِلافٍ۔ (مرقاۃ المفاتیح، رقم : ١٧٣٩)
وَلَا بَأْسَ لِأَهْلِ الْمُصِيبَةِ أَنْ يَجْلِسُوا فِي الْبَيْتِ أَوْ فِي مَسْجِدٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَالنَّاسُ يَأْتُونَهُمْ وَيُعَزُّونَهُمْ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/١٦٧)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 ذی الحجہ 1442
ماشاءاللہ
جواب دیںحذف کریںحزاك الله خيرا
جواب دیںحذف کریںJazakalla hu fid daraen
جواب دیںحذف کریںجو عورت عدت میں بیٹھی ہے اس کو کیا داماد سے پردہ کرنا چاہیے یا نہیں
جواب دیںحذف کریں