سوال :
محترم مفتی صاحب! ایک نومولود لڑکا پیدائش کے سات دن کے بعد انتقال کر جاتا ہے، اسکے والدین نے اس کے عقیقے کی نیت کی تھی۔ اب بعد انتقال کے کیا اس کا عقیقہ کر سکتے ہیں؟ رہنمائی فرمائیں۔ اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
(المستفتی : محمد ابراہیم اعجاز، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عقیقہ کرنا مسنون و مستحب ہے، اس کے کرنے سے بچہ کی حفاظت اور مشکلات ومصائب سے بچنے کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے انتظام ہوتا ہے، صورتِ مسئولہ جب عقیقہ سے پہلے ہی بچے کا انتقال ہوگیا تو پھر عقیقہ کا سبب باقی نہیں رہا، اس لیے عقیقہ نہیں کیا جائے گا، اگرچہ اہل خانہ کی عقیقہ کی نیت رہی ہو۔
فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے :
اگر عقیقہ سے پہلے بچہ کی وفات ہوجائے تو بعد میں اس کی طرف سے عقیقہ مستحب نہیں رہا۔ اور بچے کا والدین کی شفاعت کرنا اور بخشوانا عقیقہ پر موقوف نہیں ہے۔ (١٥/٦١٦)
عن سمرۃ بن جندب رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الغلام مرتہن بعقیقتہ، یذبح عنہ یوم السابع، ویسمي، ویحلق رأسہ۔ (سنن النسائي، کتاب العقیقۃ / باب متی یعقّ ۱؍۱۸۸)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
5 رجب المرجب 1439
جزاک اللہ ٹ
جواب دیںحذف کریں