سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ زید کا نکاح ہوا خلوتِ صحیحہ سے پہلے ہی زید کا انتقال ہوگیا تو کیا زید کی بیوی پر عدت ہے؟
(المستفتی : عباد اللہ، تھانہ)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نکاح کے بعد خلوتِ صحیحہ سے پہلے شوہر کا انتقال ہوجائے تو نکاح تام اور مکمل ہوجاتا ہے۔ اور جب نکاح تام ہوجائے تو نکاحِ تام کے احکام جاری ہونگے۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں زید کی بیوی پر چار مہینہ دس دن عدت گزارنا لازم ہے، اسی طرح اسے پوری مہر بھی ملے گی، نیز بیوی زید کے ترکہ سے حصہ بھی پائے گی، اور اس کا حصہ زید کے کُل مال کا چوتھائی ہوگا۔
نوٹ : خلوتِ صحیحہ کا مطلب یہ ہے کہ میاں بیوی دونوں ایسی جگہ میں تنہا جمع ہوں جہاں ازدواجی تعلقات قائم کرنے میں کوئی حسی، شرعی یا طبعی مانع نہ ہو، اگرچہ ایسی تنہائی کے باوجود ازدواجی تعلق قائم نہ کیا ہو۔
حسی مانع سے مراد یہ ہے کہ میاں بیوی دونوں یا کسی ایک کا ایسا بیمار ہونا کہ جماع کرنا مضر ہو۔ طبعی مانع کا مطلب یہ ہے کہ عورت حالتِ حیض میں ہو۔ اور مانع شرعی کی مثال میاں بیوی دونوں یا کسی ایک کا حالتِ احرام میں ہونا ہے۔
وَالْمَهْرُ يَتَأَكَّدُ بِأَحَدِ مَعَانٍ ثَلَاثَةٍ : الدُّخُولُ، وَالْخَلْوَةُ الصَّحِيحَةُ، وَمَوْتُ أَحَدِ الزَّوْجَيْنِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ۱/۳۰۳)
وإذا خلا الرجل بامرأتہ ولیس ہناک مانع من الوطئ،ثم طلقہا، فلہا کمال المہر…وعلیہا العدۃ في جمیع ہذہ المسائل۔ (ہدایۃ، کتاب النکاح، باب المہر، ۲/۳۲۵-۲/۳۲۶)
وَإِنْ مَاتَ عَنْ وَفَاءٍ تَعْتَدُّ عِدَّةَ الْوَفَاةِ دَخَلَ بِهَا أَوْ لَمْ يَدْخُلْ وَلَهَا الصَّدَاقُ وَالْإِرْثُ۔ (البحر الرائق، باب العدۃ : ٤/١٤٠)
وَالْخَلْوَةُ الصَّحِيحَةُ أَنْ يَجْتَمِعَا فِي مَكَان لَيْسَ هُنَاكَ مَانِعٌ يَمْنَعُهُ مِنْ الْوَطْءِ حِسًّا أَوْ شَرْعًا أَوْ طَبْعًا، كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٧/١٥٠)
( والخلوة ) مبتدأ خبره قوله الآتي: كالوطء ( بلا مانع حسي ) كمرض لأحدهما يمنع الوطء ( وطبعي ) كوجود ثالث عاقل، ذكره ابن الكمال وجعله في الأسرار من الحسي، وعليه فليس للطبعي مثال مستقل ( وشرعي ) كإحرام لفرض أو نفل۔ (الدر المختار شرح تنوير الأبصار : ٣/١١٤)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
03 ذی الحجہ 1442
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں