سوال :
مفتی صاحب سوال یہ ہے کہ میت کے گھر جو بھاتی کا کھانا بچ جاتا ہے وہ گلی میں تقسیم کیا جاتا ہے کیا یہ کھانا کھا سکتے ہیں؟
(المستفتی : ناصر بھائی، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ہمارے یہاں اس سلسلے میں بڑی کوتاہی ہے وہ یہ کہ میت کے اہل خانہ کی تعداد کو صحیح طور پر معلوم کیے بغیر زیادہ مقدار میں بھاتی کا آرڈر کر دیا جاتا ہے اور اسی کے حساب سے پھر بھاتی میں نام لکھانے والوں سے ضرورت سے زائد رقم بھی وصول کرلی جاتی ہے جس کی وجہ سے بڑی مقدار میں کھانا اور رقم بھی بچ جاتی ہے۔ اس لیے میت کے اہل خانہ میں ذمہ دار شخص کو چاہیے کہ وہ خود ضرورت کے بقدر ہی بھاتی منگوائے تاکہ کھانا یا رقم بچنے کا مسئلہ ہی پیدا نہ ہو۔
البتہ اگر باوجود احتیاط کے کھانا بچ جائے تو کوشش یہ ہو کہ دوسرے وقت میں یہی کھانا استعمال ہوجائے، اگر اس کے استعمال میں دقت ہوتو پھر میت کے اہل خانہ کو اختیار ہے وہ جسے چاہیں یہ کھانا دے دیں، کیونکہ اب یہ ان کی ملکیت ہے، اور جن لوگوں کو یہ کھانا دیا جائے خواہ وہ امیر ہوں یا غریب، سب کے لیے اس کھانے کا کھانا جائز ہے، شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ کیونکہ یہ میت کے اہل خانہ کی طرف سے انہیں ہدیہ ہے۔
بھاتی میں بچ جانے والی رقم کا کیا کیا جائے؟ اس مسئلے کو پڑھنے کے لیے درج ذیل لنک پر کلک کریں۔
بھاتی میں بچی ہوئی رقم کا کیا جائے؟
والإذن نوعان : صریح ودلالۃ ۔۔۔ وأما الدلالۃ فہي أن یقبض الموہوب لہ العین في المجلس ولا ینہاہ الواہب فیجوز قبضہ استحسانًا۔ (بدائع الصنائع، بیان شرائط صحۃ القبض، ۵؍۱۷۶-۱۷۷)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 شوال المکرم 1442
اسلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
جواب دیںحذف کریںمفتی صاحب اللہ آپ کے علم و عمل عمر و صحت میں برکت عطا فرمائے (آمین)
بھاتی کی شرعی حیثیت کیا ہے سنت ہے مستحب ہے کیا ہے
اگر سنت اور مستحب نہیں ہے یہ صحابہ کرام کا عمل بھی نہیں ہے تو پھر رائج کیوں ہے