سوال :
زید نے ایک بسی شروع کی ہے جو تین لاکھ روپیہ والی ہے، اس میں 10 ممبران ہیں، ہے، ہر ماہ بسی پر بولی لگتی ہے، جو جتنا کم روپیہ لینے پر راضی ہوجائے، بسی اس کو دے دی جاتی ہے، مثلاً ایک ممبر تین لاکھ کے بجائے دو لاکھ نوے ہزار لینے پر راضی ہو اور دوسرا دو لاکھ اسی ہزار لینے پر راضی ہوجائے تو اس دوسرے ممبر کو بسی دے دی جاتی ہے اور بقیہ بیس ہزار تمام ممبران میں برابر برابر تقسیم کردیاجاتا ہے۔ کیا ایسی صورت میں بسی چلانا درست ہے ؟قرآن اور حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : حافظ شمس الدین، ناگپور)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں بسی کے منتظم زید اور دیگر اراکین کا آپس میں اس طرح کا معاملہ کرنا دو وجوہات کی بناء پر ناجائز و حرام ہے۔
پہلا یہ کہ اعانت کی شرط پر مال کا لین دین کیا جارہا ہے، مطلب یہ کہ بسی کا منتظم زید اور دیگر اراکین صرف آگے نمبر دینے کی وجہ سے جو مال خواہش مند رکن سے طلب کررہے ہیں اور یہ رکن جو مال انہیں دے رہا یہ رشوت کہلائے گا۔ اور رشوت لینے اور دینے والے دونوں پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے لعنت فرمائی ہے۔
دوسرے یہ کہ کم رقم کو زیادہ رقم کے بدلے فروخت کیا جارہا ہے، مطلب آگے کے نمبر کے خواہشمند رکن کو اپنی تین لاکھ کی رقم لینے کے دس یا بیس ہزار کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے اور یہ رقم دیگر اراکین کے پاس جارہی ہے جو بلاشبہ سود ہے۔ جس کے متعلق حدیث شریف میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے سود کھانے والے، سودکھلانے والے، سود لکھنے والے اور سود پر گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی، اور فرمایا کہ گناہ میں سب برابر ہیں۔
لہٰذا بسی کے منتظم زید اور دیگر اراکین کو چاہئے کہ اگر کسی رکن کو آگے کے نمبرات کی ضرورت ہوتو اسے بغیر کسی عوض کے دیا جائے، اس پر رقم وغيرہ کا مطالبہ بالکل نہ کیا جائے۔ اور اگر کسی سے یہ رقم لے لی گئی ہے تو اسے واپس کرنا ضروری ہے، ورنہ عنداللہ ان کا سخت مؤاخذہ ہوگا۔ اور اگر مالک کو لوٹانا ممكن نہ ہوتو بلانیتِ ثواب اس رقم کو غرباء اور مساکین میں تقسیم کیا جائے گا۔
وَالرِّشْوَةُ مَالٌ يُعْطِيهِ بِشَرْطِ أَنْ يُعِينَهُ كَذَا فِي خِزَانَةِ الْمُفْتِينَ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب ادب القاضی، ۳/٣٣٠)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّاشِيَ وَالْمُرْتَشِيَ فِي الْحُکْمِ۔ (سنن الترمذی : ۱؍۲۴۸)
عَنِ جَابِرٍ ابْنِ عَبْدِاللہِ قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا وَمُوكِلَهُ وَشَاهِدَيْهِ وَكَاتِبَهُ، وَقَالَ : ھُم سَوَاء۔ (صحیح مسلم : ۲؍۷۲)
وَيَرُدُّونَهَا عَلَى أَرْبَابِهَا إنْ عَرَفُوهُمْ، وَإِلَّا تَصَدَّقُوا بِهَا لِأَنَّ سَبِيلَ الْكَسْبِ الْخَبِيثِ التَّصَدُّقُ إذَا تَعَذَّرَ الرَّدُّ عَلَى صَاحِبِهِ۔ (شامی : ٩/٣٨٥)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
27 شوال المکرم 1442
جزاک اللہ خیرا
جواب دیںحذف کریںAssalamualaikum mufti saheb Ghar ya ghadi giro se Lena kaisa
جواب دیںحذف کریں