سوال :
مفتی صاحب! ہمارے یہاں شہر میں اس وقت شادیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ مجلس نکاح کے بعد مسجد میں لڑکی کے رشتے داروں کی جانب سے اہتمام کے ساتھ آئس کریم تقسیم کی جاتی ہے اور اسے نکاح کا ایک لازم حصہ سمجھا جاتا ہے نکاح کے بعد جب آئس کریم تقسیم ہوتی ہے تو درج ذیل صورت حال پیش آتی ہے۔
١) مسجد میں آواز بلند ہوتی ہے۔
٢) اکثر لوگ بغیر اعتکاف کی نیت سے مسجد میں کھاتے ہیں۔
٣) کھاتے کھاتے مسجد میں دنیوی بات چیت ہوتی ہے۔
٤) اکثر آئس کریم تقسیم کرنے والے مسجد کے دروازے پر تقسیم کرتے ہیں جس کی وجہ سے راستے پر بھیڑ بھاڑ ہوتی ہے اور راستہ چلنے والوں کو تکلیف ہوتی ہے۔
٥) مالدار مہنگی آئس کریم تقسیم کرتے ہیں اور غریب وسعت نہ ہونے کے باوجود بھی تقسیم کرتے ہیں، ایک جذبہ اسکے کرنے میں یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر نہیں کریں گے تو لوگ کیا کہیں گے؟ اور بعض لوگوں کو منع کیا گیا تو کہنے لگے کہ خوشی کا موقع ہے اور خوشی سے کررہے ہیں تو کرنے دو۔ تو کیا خوشی کے موقع پر مسلمان خرچ میں آزاد ہوتا ہے؟
مفتی صاحب براہ کرم اس کی شرعی حیثیت واضح فرمائیں۔
(المستفتی : زید انجینئر، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نکاح کا موقع بلاشبہ خوشی کا موقع ہے، لہٰذا اس موقع پر مجلسِ نکاح میں جو لوگ شریک ہوں ان کی مہمان نوازی اور خوشی کے اظہار کے لیے شرعی حدود میں رہتے ہوئے اگر ان کا منہ میٹھا کیا جائے تو شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی اسے ضروری اور نکاح کا لازمی جزو سمجھتا ہوتو بلاشبہ اس کے حق میں یہ عمل بدعت بن جائے گا، ایسے لوگوں کو اپنی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔
نکاح کے موقع پر جو کچھ بھی تقسیم کیا جائے اس میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اسے انتہائی سنجیدگی سے تقسیم کیا جائے اور اسے سنجیدگی کے ساتھ لیا جائے، بہتر ہے کہ اسے مسجد کی شرعی حدود کے باہر کھایا جائے، اور اگر مسجد کے اندر کھانے کی ضرورت ہوتو دل میں ارادہ کرلیا جائے میں اعتکاف کی نیت کرتا ہوں، بلکہ مسجد میں داخل ہوتے وقت ہی اعتکاف کی نیت کرلینا مستحب ہے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ مسجد میں مطلقاً بات کرنا منع نہیں ہے، بلکہ کسی سے ملاقات پر خیر خیریت پوچھ لینا اور کوئی ضروری بات کرلینے میں حرج نہیں، لیکن لایعنی قصے لے کر بیٹھ جانا یا خرید وفروخت کی بات کرنا مکروہ وممنوع ہے۔ مسجد کے دروازے پر آئسکریم تقسیم کرنے والوں کو بھی اس کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس کی وجہ سے دوسروں کو تکلیف نہ ہو ورنہ یہ لوگ گناہ گار ہوں۔
مشاہدہ کی بات یہ بھی ہے کہ کوئی بھی اس موقع پر آئسکریم وغیرہ تقسیم کرنے کو ضروری نہیں سمجھتا، یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی اپنی استطاعت کے مطابق کوئی چیز تقسیمِ کرتا ہے، کوئی آئسکریم تو کوئی شربت کا نظم کرتا ہے، اور بعض وہ بھی ہیں جو کچھ بھی تقسیم نہیں کرتے۔ اور کوئی انہیں برا بھی نہیں کہتا۔
لہٰذا اس میں جو قباحتیں پیدا ہورہی ہیں، ان کی نشاندہی کرنا اور ان کو ختم کرنے کی کوشش کرنا چاہیے، دیگر قباحتوں کے در آنے کی وجہ سے وہ بھی بعض لوگوں کی طرف سے ہو اور اس کی اصلاح بھی ممکن ہو اس کے باوجود اس جائز عمل کو ناجائز کہہ کر اس سے روکنا شریعت کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ایسا کرنے سے ایک بڑا طبقہ تنگی محسوس کرے گا۔
خلاصہ یہ کہ اس عمل کو شرعی حددو میں رہتے ہوئے کیا جاسکتا ہے، لہٰذا اس عمل کو مطلقاً ناجائز نہیں کہا جائے گا۔ البتہ اگر خدانخواستہ حالات ایسے ہی بن گئے ہوں کہ اس عمل کی وجہ سے مذکورہ بالا برائیوں کا پایا جانا لازمی ہو تو پھر بلاشبہ اس سے اجتناب کیا جائے گا۔
عن عائشۃ قالت : قال رسول اللہ ﷺ: من أحدث فی أمرنا ہذا مالیس منہ فہد رد۔ (صحیح البخاری، کتاب الصلح، رقم : ۲۶۱۹)
وَالْكَلَامُ الْمُبَاحُ؛ وَقَيَّدَهُ فِي الظَّهِيرِيَّةِ بِأَنْ يَجْلِسَ لِأَجْلِهِ وتحتہ فَإِنَّهُ حِينَئِذٍ لَا يُبَاحُ بِالِاتِّفَاقِ لِأَنَّ الْمَسْجِدَ مَا بُنِيَ لِأُمُورِ الدُّنْيَا۔ (شامی، مطلب فی الغرس فی المسجد، ۱/۶۶۲)
وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَفْعَلَ ذَلِكَ يَنْبَغِي أَنْ يَنْوِيَ الِاعْتِكَافَ فَيَدْخُلَ فِيهِ وَيَذْكُرَ اللَّهَ تَعَالَى بِقَدْرِ مَا نَوَى أَوْ يُصَلِّيَ ثُمَّ يَفْعَلَ مَا شَاءَ، كَذَا فِي السِّرَاجِيَّةِ، وَلَا بَأْسَ لِلْغَرِيبِ وَلِصَاحِبِ الدَّارِ أَنْ يَنَامَ فِي الْمَسْجِدِ فِي الصَّحِيحِ مِنْ الْمَذْهَبِ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ، الباب الخامس في آداب المسجد، ٥/٣٢١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 شوال المکرم 1442
جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء
جواب دیںحذف کریںسائل کچھ زیادہ ہی سوچ رہے ہیں،
جواب دیںحذف کریںبہر حال مدلل جواب کے لیے شکریہ، 🌷🌷