سوال :
کل خطبہ جمعہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کا ایک واقعہ سنایا گیا کہ ایک صحابی کے گھر کھانے وغیرہ کے لئے کچھ تھا نہیں ان کی بیوی نے انہیں بتایا ۔ وہ صحابی مسجد گئے دو رکعت نماز پڑھی۔ اللہ سے دعا کی اور گھر آئے۔۔ بیوی سے پوچھا کچھ انتظام ہوا؟ بیوی نے کہا نہیں۔ وہ پھر مسجد آئے دو رکعت نماز پڑھی اللہ سے دعا کی۔ واپس گھر آئے بیوی سے پوچھا کچھ انتظام ہوا؟ بیوی نے کہا نہیں وہ پھر مسجد آئے پھر دو رکعت نماز پڑھی اللہ سے دعا کی پھر واپس آئے بیوی سے پوچھا کچھ انتظام ہوا؟ بیوی نے کہا آپ گھر کے اندر آؤ اور دیکھو آٹے کی چکی اپنے آپ چل رہی ہے اور کوئی گیہوں ڈالنے والا بھی دکھائی نہیں دے رہا ہے اور میں نے گھر کا ہر برتن آٹے سے بھر لیا ہے وہ صحابی اندر آئے انہوں نے منظر دیکھا اور چکی کے دونوں پاٹوں کو الگ کر دیا۔ پھر سارا واقعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم ان چکی کے پاٹوں کو الگ نہیں کرتے تو تا قیامت وہ چکی چلتے رہتی۔
اس واقعہ کی تحقیق مطلوب ہے۔
(المستفتی : وکیل احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سوال نامہ میں مذکور واقعہ درست ہے اور امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ نے اسے اپنی مسند میں روایت کیا ہے، اس واقعہ کو کرامات میں شمار کیا گیا ہے، اور یہ کرامت درحقیقت، فقر وفاقہ پر صبر اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل اعتماد وتوکل کرنے کا نتیجہ تھا۔ اس روایت کو ذیل میں آسان فہم انداز میں ذکر کیا جارہا ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص کا واقعہ ہے کہ وہ ایک دن اپنے گھر والوں کے پاس آیا یعنی کہیں باہر سے آ کر گھر میں داخل ہوا تو اس نے گھر والوں پر محتاجگی اور فاقہ وفقر کے آثار دیکھے، وہ یہ دیکھ کر اپنے اللہ کے حضور اپنی حاجات پیش کرنے اور یکسوئی کے ساتھ اس کی بارگاہ میں عرض ومناجات کرنے کے لئے جنگل کی طرف چلا گیا، ادھر جب اس کی بیوی نے یہ دیکھا کہ شوہر کے پاس کچھ نہیں ہے اور وہ شرم کی وجہ سے گھر سے باہر چلا گیا ہے تو وہ اٹھی اور چکی کے پاس گئی، چکی کو اس نے اپنے آگے رکھا یا اس نے چکی کے اوپر کا پاٹ نیچے کے پاٹ پر رکھا اور یا یہ معنی ہیں کہ اس نے اس امید میں چکی کو صاف کیا اور تیار کر کے رکھ دیا کہ شوہر باہر سے آئے گا تو کچھ لے کر آئے گا اس کو پیس کر روٹی پکا لوں گی پھر وہ تنور کے پاس گئی اور اس کو گرم کیا، اس کے بعد اللہ سے یہ دعا کی۔ الٰہی! ہم تیرے محتاج ہیں ، تیرے غیر سے ہم نے اپنی امید منقطع کر لی ہے، تو خیرالرازقین ہے اپنے پاس سے ہمیں رزق عطا فرما۔ پھر جو اس نے نظر اٹھائی تو کیا دیکھتی ہے کہ چکی کا گرانڈ آٹے سے بھرا ہوا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد جب وہ آٹا گوندھ کر تنور کے پاس گئی تاکہ اس میں روٹیا لگائے تو تنور کو روٹیوں سے بھرا ہوا پایا یعنی اللہ کی قدرت نے یہ کرشمہ دکھایا کہ خود بخود اس آٹے کی روٹیاں بن کر تنور میں جا لگیں یا یہ کہ آٹا تو اپنی جگہ چکی کے گرانڈ میں پڑا رہا اور تنور میں غیب سے روٹیاں نمودار ہو گئیں راوی کہتے ہیں کہ کچھ دیر بعد جب خاوند بارگارہ رب العزت میں عرض ومناجات اور دعا سے فارغ ہو کر گھر آیا تو بیوی سے پوچھا کہ کیا میرے جانے کے بعد تمہیں کہیں سے کچھ غلہ وغیرہ مل گیا تھا کہ تم نے یہ روٹیاں تیار کر رکھی ہیں؟ بیوی نے کہا ہاں یہ ہمیں اللہ کی طرف سے ملا ہے (یعنی یہ عام طریقہ کے مطابق کسی انسان نے ہمیں نہیں دیا ہے بلکہ یہ رزق محض غیب سے اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے) خاوند نے یہ سنا تو اس کو بہت تعجب ہوا اور وہ اٹھ کر چکی کے پاس گیا اور چکی کو اٹھایا تاکہ اس کا کرشمہ دیکھے) پھر جب اس واقعہ کا ذکر نبی کریم ﷺ کے سامنے کیا گیا تو آپ ﷺ نے پورا قصہ سن کر فرمایا " جان لو" اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر وہ شخص اس چکی کو اٹھا نہ لیتا تو وہ چکی مسلسل قیامت کے دن تک گردش میں رہتی اور اس سے آٹا نکلتا رہتا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے میری موجودگی میں فرمایا بخدا! یہ بات بہت بہترہے کہ تم میں سے کوئی آدمی پہاڑ پر جائے لکڑیاں باندھے اور اپنی پیٹھ پر لاد کر اسے بیچے اور اس سے عفت حاصل کرے بہ نسبت اس کے کہ کسی آدمی کے پاس جا کر سوال کرے۔ (١)
بہتر ہے کہ اس روایت کو اسی طرح بیان کیا جائے نفس واقعہ میں کمی بیشی نہ کی جائے، مثلاً صحابی رسول کا تین مرتبہ واپس آکر دریافت کرنا روایت میں نہیں ہے، لہٰذا اسے بیان نہ کیا جائے۔
١) حَدَّثَنَا ابْنُ عَامِرٍ ، أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : دَخَلَ رَجُلٌ عَلَى أَهْلِهِ، فَلَمَّا رَأَى مَا بِهِمْ مِنَ الْحَاجَةِ خَرَجَ إِلَى الْبَرِيَّةِ، فَلَمَّا رَأَتْ ذَلِكَ امْرَأَتُهُ قَامَتْ إِلَى الرَّحَى، فَوَضَعَتْهَا، وَإِلَى التَّنُّورِ فَسَجَرَتْهُ، ثُمَّ قَالَتِ : اللَّهُمَّ ارْزُقْنَا. فَنَظَرَتْ فَإِذَا الْجَفْنَةُ قَدِ امْتَلَأَتْ، قَالَ : وَذَهَبَتْ إِلَى التَّنُّورِ، فَوَجَدَتْهُ مُمْتَلِئًا، قَالَ : فَرَجَعَ الزَّوْجُ، قَالَ : أَصَبْتُمْ بَعْدِي شَيْئًا ؟ قَالَتِ امْرَأَتُهُ : نَعَمْ مِنْ رَبِّنَا. قَامَ إِلَى الرَّحَى. فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : " أَمَا إِنَّهُ لَوْ لَمْ يَرْفَعْهَا لَمْ تَزَلْ تَدُورُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ". شَهِدْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ : " وَاللَّهِ، لَأَنْ يَأْتِيَ أَحَدُكُمْ صِيَرًا، ثُمَّ يَحْمِلَهُ يَبِيعَهُ، فَيَسْتَعِفَّ مِنْهُ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَأْتِيَ رَجُلًا يَسْأَلُهُ۔ (مسند احمد، رقم : 10658)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
14 ذی القعدہ 1442
جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء
جواب دیںحذف کریںجَــــــــزَاک الــلّٰــهُ خَـــــيْراً
جواب دیںحذف کریںJazakallah hu khairan ....fiddarain
جواب دیںحذف کریںJazak Allah
جواب دیںحذف کریں