سوال :
محترم مفتی صاحب ! عرض ہیکہ زید کے لڑکے کی شادی دو سال قبل ہوئی تھی بہو ہندہ کا انتقال ہوگیا ہے اس کو کوئی اولاد نہیں ہے اس کے ترکہ میں لاکھوں کا جہیز ہے اور دو لاکھ روپیہ مہر ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہندہ کے والد ہندہ کے ترکے میں اپنا حصہ مانگ رہے ہیں تو کیا ہندہ کے ترکے میں انکے والدین کا حصہ ہوگا؟ ہوگا تو شرعی حساب سے کتنا ہوگا؟ اور کیا ان کو اپنی مرحوم بیٹی کو دیئے گئے جہیز میں حصہ مانگنے کا حق ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی جواب دے کر شکریہ کا موقعہ دیں نوازش ہوگی۔
(المستفتی : امین وارثی، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں ہندہ کی ملکیت کا جہیز مہر وغیرہ ترکہ بنے گا۔ ترکہ کا حکم یہ ہے کہ اس میں سے پہلے میت پر اگر قرض ہوتو وہ ادا کیا جائے گا اور اگر وصیت ہوتو تہائی مال سے پوری کرنے کے بعد جو بچے گا وہ شرعی اصول وضوابط کے مطابق وارثین میں تقسیم ہوگا۔
مرحومہ ہندہ کے شرعی وارثین میں بلاشبہ والدین بھی ہیں، لہٰذا ان کا اپنا شریعت میں مقرر کردہ حصہ مانگنے کا پورا پورا حق ہے۔ اور اس کی ترتیب یہ ہے کہ مرحومہ ہندہ کے کل مال کے چھ حصے کیے جائیں گے اور ذیل کے مطابق وارثین میں تقسیم کیے جائیں گے۔
ہندہ کی چونکہ کوئی اَولاد نہیں ہے لہٰذا شوہر کو کل مال کا نصف یعنی تین حصے ملیں گے۔
ہندہ کی والدہ کو بقیہ تین حصوں میں سے تہائی یعنی ایک حصہ ملے گا، والد عصبہ ہوں گے، لہٰذا بقیہ دو حصے انہیں مل جائیں گے۔
قَالَ اللہُ تعالیٰ : وَلَکُمْ نِصْفُ مَا تَرَکَ اَزْوَاجُکُمْ اِنْ لَمْ یَکُنْ لَہُنَّ وَلَدٌ، فَاِنْ کَانَ لَہُنَّ وَلَدٌ فَلَکُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُوْصِیْنَ بِہَا۔ (سورۃ النساء، جزء آیت : ۱۲)
وقَالَ تعالیٰ : فَاِنْ لَمْ یَکُنْ لَہٗ وَلَدٌ وَوَرِثَہٗ اَبَوَاہُ فَلِاُمِّہٖ الثُّلُثُ۔ (سورۃ النساء، جزء آیت : ۱۱)
إذ یفہم منہ أن الباقي للأب فیکون عصبۃً۔ (الشریفیۃ علی السراجي : ۵۷)
ھذا إذا لم یکن مع الأبوین أحد الزوجین، وأما إذا کان معہما أحدہما فلہا ثلثُ ما یبقیٰ بعد فرض أحد الزوجین۔ (الشریفیۃ : ۶۹)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
11 ذی القعدہ 1442
مفتی صاحب آپ سے سوال کس طرح کر سکتے ہیں
جواب دیںحذف کریںاس واٹس اپ نمبر 9270121798 پر رابطہ کریں ۔
حذف کریں