سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ کیا عورتیں اپنے سر کے بال بطور زینت کاٹ سکتی ہیں؟ اگر بال دو منہ والے ہوجائیں تو کیا بڑھنے کے لیے اسے کاٹ سکتے ہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد مزمل، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عورتوں کے لیے بال ان کی زینت کا سامان اور ان کی شناخت اور پہچان ہے، اس لیے عورتوں کے بال کاٹنے سے مَردوں کی مشابہت پیدا ہوجاتی ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے، اس لیے بالغ لڑکیوں اور خواتین کا بال کے معاملہ میں ایسی تراش و خراش کرنا جائز نہیں ہے۔ البتہ اگر بال پھٹ جائیں یا دو منہ والے ہوں جو بڑھتے نہ ہوں تو انہیں کنارے سے کاٹا جاسکتا ہے، تاکہ دوبارہ بال صحیح طور پر نکلیں، یا اتنے بڑے ہوجائیں کہ اعتدال کی حد سے نکل جائیں اور ان کی نگہداشت اور انہیں سنبھالنا مشکل ہوجائے تو انہیں اعتدال میں لانے کے لیے کاٹنا جائز ہے، شریعت میں اس کی گنجائش ہے، اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُتَشَبِّهَاتِ بِالرِّجَالِ مِنْ النِّسَائِ وَالْمُتَشَبِّهِينَ بِالنِّسَائِ مِنْ الرِّجَالِ۔(صحیح البخاري، رقم : ۵۸۸۵)
وَلَوْ حَلَقَتْ الْمَرْأَةُ رَأْسَهَا فَإِنْ فَعَلَتْ لِوَجَعٍ أَصَابَهَا لَا بَأْسَ بِهِ وَإِنْ فَعَلَتْ ذَلِكَ تَشَبُّهًا بِالرَّجُلِ فَهُوَ مَكْرُوهٌ كَذَا فِي الْكُبْرَى۔ (الفتاوی الہندیۃ : ۵؍۳۵۸) فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
04 ذی القعدہ 1442
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں