سوال :
ایک خاتون کی میت کو غسل دیا گیا اور انہیں لوگوں کے دیدار کے لیے ان کے گھر کے باہر رکھا گیا جو کوئی بھی آتا وہ انہیں دیکھتا اور ان کی میت کے قریب کافور رکھا تھا۔ اسے چٹکی بھر اٹھاتے اور ان کے کفن پر ڈال کر چلے جاتے دیکھنے والوں میں غیر محرم مرد بھی شامل تھے اس طرح کرنا کہاں تک صحیح ہے؟
(المستفتی : عبدالرحمن قریشی، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : میت خواہ مرد کی ہو یا عورت کی، اسے غسل دینے کے بعد ان اعضاء پر کافور لگانا سنت ہے جن پر سجدہ کیا جاتا ہے۔ اور یہ حکم اُن اعضاء کی تعظیم اور احترام کی غرض سے ہے، نیز ان اعضاء کو جلد از جلد کیڑوں کی غذا بننے سے بچانا ہے۔ لہٰذا جن اعضاء سے عورت سجدہ کرتی ہے یعنی پیشانی، ناک، ہتھیلی، کہنیوں سمیت پنڈلی گھٹنوں سمیت اور دونوں قدم ان ہی اعضاء پر کافور مَلا جائے گا۔ ان کے علاوہ میت کا دیدار کرنے والوں کا کفن پر چٹکی بھر کافور ڈالنا بے اصل ہے، اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اسے دین کا حصہ سمجھ کر کیا جارہا ہوتو یہ عمل بلاشبہ بدعت اور گمراہی ہے۔ اور گمان یہ بھی ہوتا ہے کہ یہ عمل غالباً ہندوانہ رسم ورواج متاثر ہونے کا نتیجہ ہے۔ لہٰذا ہر دو صورت میں ایسا کرنا شرعاً ناجائز اور گناہ ہے جس سے بچنا ضروری ہے۔
جس طرح زندگی میں کسی نامحرم عورت کو بلاضرورتِ شدیدہ دیکھنا جائز نہیں ہے، اسی طرح اس کے انتقال کے بعد بھی اسے دیکھنا جائز نہیں ہے۔
حدیث شریف میں آتا ہے :
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ آنکھیں (زنا کرتی ہیں) کہ ان کا زنا نامحرم کو دیکھنا ہے، اور کان (زنا کرتے ہیں) کہ ان کا زنا نامحرم کی بات سننا ہے، اور زبان (زنا کرتی ہے) کہ اس کا زنا نامحرم کے ساتھ بولنا ہے، اور ہاتھ بھی (زنا کرتے ہیں) کہ ان کا زنا نامحرم کو چھونا ہے۔ (مسلم : ۴/ ۳۳۶)
لہٰذا عورت کی میت کو دیکھنے والے نامحرم اور میت کو غیرمحرم کو دکھانے والے اہلِ خانہ سب گناہ گار ہوں گے، جس کی وجہ سے ان پر توبہ و استغفار لازم ہے، اور آئندہ اس غیر شرعی عمل سے اجتناب ضروری ہے۔
عن علقمۃ عن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: الکافور یوضع علی مواضع السجود۔ (السنن الکبریٰ للبیہقي، رقم : ۶۸۰۶)
ثُمَّ يُوضَعُ الْحَنُوطُ فِي رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ. لِمَا رُوِيَ أَنَّ آدَمَ - صَلَوَاتُ اللَّهِ وَسَلَامُهُ عَلَيْهِ - لَمَّا تُوُفِّيَ غَسَّلَتْهُ الْمَلَائِكَةُ وَحَنَّطُوهُ وَيُوضَعُ الْكَافُورُ عَلَى مَسَاجِدِهِ يَعْنِي جَبْهَتَهُ وَأَنْفَهُ وَيَدَيْهِ وَرُكْبَتَيْهِ وَقَدَمَيْهِ لِمَا رُوِيَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّهُ قَالَ: وَتُتْبَعُ مَسَاجِدُهُ بِالطِّيبِ يَعْنِي بِالْكَافُورِ؛ وَلِأَنَّ تَعْظِيمَ الْمَيِّتِ وَاجِبٌ وَمِنْ تَعْظِيمِهِ أَنْ يُطَيَّبَ لِئَلَّا تَجِيءَ مِنْهُ رَائِحَةٌ مُنْتِنَةٌ وَلِيُصَانَ عَنْ سُرْعَةِ الْفَسَادِ۔ (بدائع الصنائع : ١/٣٠٨)
عن عائشۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہا قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہٰذا ما لیس منہ فہو رد۔ (صحیح البخاري، الصلح / باب إذا اصطلحوا علی صلح جور فالصلح مردود رقم: ۲۶۹۷)
عن العرباض بن ساریۃ رضي اللّٰہ عنہ قال : قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ذات یوم في خطبتہ…: إیاکم ومحدثات الأمور، فإن کل محدثۃ بدعۃ، وکل بدعۃ ضلالۃ۔ (سنن أبي داؤد ۲؍۶۳۵)
عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال : قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (سنن أبي داؤد، رقم : ٤٠٣١)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
03 ذی القعدہ 1442
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں