پیر، 14 جون، 2021

میڈیکل لائسنس کرایہ پر دینے کا حکم

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ میں فارماسسٹ ہوں، مجھے حکومت کی جانب سے میڈیکل کھولنے کا لائسنس ملا ہوا ہے، جو میں کسی کو کرایہ پر دینا چاہتا ہوں، کیا میرا یہ عمل شرعاً جائز ہے؟ اس کے کرایہ کا کیا حکم ہوگا؟ براہ کرم جواب عنایت فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : محمد سعد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : فارمیسی کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد طالب علم کو حکومت کی جانب سے میڈیکل چلانے کے لیے جو لائسنس ملتا ہے وہ صرف ایک اجازت نامہ ہے، یہ مالِ متقوم نہیں ہے، یعنی شریعت نے اسے مال تسلیم نہیں کیا ہے، لہٰذا اس کی خرید وفروخت اور اسے کرایہ پر دینا شرعاً جائز نہیں ہے۔

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
مذکورہ بالا صورت میں اگر آپ میڈیکل پر نہیں بیٹھتے ہیں تو محض لائسنس دینے کی وجہ سے آپ کے لیے رقم لینا جائز نہیں، اس میں جھوٹ اور غرر کے ساتھ ملکی قوانین کی خلاف ورزی بھی ہے جس سے بچنا ضروری ہے۔
================
نوٹ : جواب درست ہے لائسنس سے فائدہ اٹھانے کا ایک طریقہ ہوسکتا ہے کہ آپ کسی کے ساتھ سرمایہ لگاکر پاٹنر شپ میں دکان کھول لیں اور حسب صواب دید نفع کا تناسب باہم طے کرلیں۔ (رقم الفتوی : 57290)

اس کا فائدہ حاصل کرنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ کم از کم دو چار گھنٹے آپ خود بھی میڈیکل پر وقت دیں اور بجائے لائسنس کے اپنا وقت دینے کی اجرت متعین کریں۔ ورنہ لائسنس کا کرایہ لینا آپ کے لیے جائز نہ ہوگا۔

وشرط ان یکون فی العقد عوضان کل واحدٍ منھما مال یتحقق رکن البیع وھو مبادلۃ المال بالمال۔(تبیین الحقائق : ۴؍۶۱، فصل فی قبض المشتری المبیع فی البیع الفاسد بامر البائع)

اتفق الفقہاء علی صحۃ البیع اذا کان المعقود علیہ مالاً متقومًا محرزًا موجودًا مقدوراً علی تسلمیہ معلومًا للعاقدین لم یتعلق بہٖ حق الغیر۔ (الفقہ الاسلامی ادلتہ: ۴؍۵۰۴، کتاب البیوع، ثالثًا ، البیوع المنوعۃ بسبب المعقود علیہ الخ)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
02 ذی القعدہ 1442

2 تبصرے:

بوگس ووٹ دینے کا حکم