ہفتہ، 12 جون، 2021

مسائل کی تشہیر پر ایک رائے کا تفصیلی جواب

سوال :

جہاں تک آپ کے فتوی کی تشہیر کا معاملہ ہے اس عاجز کی ذاتی رائے ہیکہ فتوی اسی وقت دیا جائے یا تشہیر کی جائے جب اس کی ضرورت ہو اور یا کسی نے رجوع کیا ہو۔ روزآنہ دینے سے اہمیت کم ہوتی ہے۔ یہ ذاتی رائے ہے۔ لیکن اگر قرآن و احادیث کی روشنی میں تشہیر کرنا ثابت ہو تو یہ عاجز اپنی بات واپس لیتا ہے اور توبہ استغفار کرتا ہے۔ آپ بھی معاف کریں۔ یہ عاجز آپ کے علم کے آگے جاہل ہے۔آپ وہی کریں جو قرآن و احادیث سے ثابت ہے۔
(درخواست گذار : عبداللہ سر، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : سب سے پہلے یہ سمجھ لیا جائے کہ فتوی ہے کیا؟ فتوی حکم شرعی کو سائل کے لئے دلیل شرعی سے واضح کرنے کا نام ہے۔

والفتویٰ فی الاصلاح : تبیین الحکم الشرعی، عن دلیل لمن سأل عنہ۔(موسوعہ فقہیہ: ۳۲/ ۲۰)

معلوم ہوا فتویٰ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی ضرورت صرف کسی خاص اور اہم موقع پر ہی ہو۔ بلکہ ہر معاملے میں فتوی یعنی شرعی رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ شرعی رہنمائی کے بغیر کوئی بھی کام گمراہی کی طرف لے جانے والا ہے۔ یہ تو ہماری کوتاہی ہے کہ ہم نے فتوی کو صرف طلاق اور میراث کے مسائل تک محدود کردیا۔

موجودہ دور میں جبکہ ہر چیز سوشل میڈیا پر آرہی ہے تو ایک مثبت اور مفید کام یہ بھی ہوگیا کہ لوگوں نے اپنے چھوٹے بڑے مسائل کا حل بھی آن لائن دریافت کرنا شروع کردیا، یہی وجہ ہے کہ بندے کے پاس بھی بڑی تعداد میں سوالات آتے ہیں اور بندہ کتب فقہ وفتاوی سے اس کی نظیر تلاش کرکے آسان اور عام فہم انداز میں اس کا جواب لکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور یہ معاملہ صرف مستفتی کی حد تک نہیں ہوتا، بلکہ یہ سوال جواب ہر فرد کے لیے مفید ہوتے ہیں، اس میں صرف وہ سوالات نہیں ہوتے جو عموماً دارالافتاء سے کیے جاتے ہیں، مثلاً وراثت اور طلاق سے متعلق مسائل جو عموماً مستفتی کی ذات تک ہی محدود اور مفید ہوتے ہیں، جبکہ آن لائن پوچھے گئے سوالات وہ ہوتے ہیں جو دین کے ہر جزو سے متعلق ہوتے ہیں۔ مثلاً عقائد، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، قربانی، نکاح، طلاق، میراث، تجارت، معاملات، معاشرت، سنن وآداب وغیرہ ۔

ان میں بعض مسائل فرائض کی قبیل سے ہوتے ہیں جن کا جاننا ہر مسلمان پر ضروری ہوتا ہے، بعض واجب جن کا جاننا واجب اور بعض سنت جن کا جاننا سنت اور  بعض مستحب جن کا جاننا مستحب ہوتا ہے۔ چنانچہ انہیں پڑھنا صرف مستفتی پر ضروری نہیں ہوتا، بلکہ یہ علمی مواد ہر ایک لیے مفید ہوتا ہے۔ لہٰذا اسے شیئر کردیا جاتا ہے۔

آپ کے کہنے کے مطابق اگر جواب صرف مستفتی کی حد تک ہی محدود اور مفید ہوتا ہے تو ازہر ہند دارالعلوم دیوبند نے کیوں انتہائی منظم ویب سائٹ بناکر اس پر فتاوی شیئر کرنے کا مبارک سلسلہ شروع کیا ہے؟ جس پر تیس ہزار سے زائد فتاوی موجود ہیں، اس کے علاوہ بھی ہر مسلک کے بڑے بڑے اداروں کی ویب سائٹ موجود ہے، جن پر فتاوی شیئر کیے جاتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ہر مسلک کے علماء کرام کی ویب سائٹ، بلاگ، یوٹیوب چینل اور سوشل میڈیا پر یہی کام بڑے پیمانے پر ہورہا ہے۔ اس پر آپ کیا کہیں گے؟ کیا یہ سب بھی غلط ہورہا ہے؟ یا بلاضرورت ہورہا ہے؟

بلاشبہ بعض جوابات ایسے ہوتے ہیں جنہیں مستفتی کی حد تک ہی محدود رکھنا چاہیے، الحمدللہ اس کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے، اسے شیئر نہیں کیا جاتا، یا مستفتی کی شناخت کو واضح نہیں کیا جاتا۔ بعض جوابات سے فتنہ کا اندیشہ ہوتا ہے، ایسے جوابات دیئے ہی نہیں جاتے یا پھر مختصراً جواب لکھ دیا جاتا ہے تاکہ اس کا غلط استعمال نہ ہو۔ لہٰذا مسائل کی تشہیر پر اعتراض خلافِ شرع ہونے کے ساتھ ساتھ خلافِ عقل بھی ہے، کیونکہ یہ خیر کے کاموں میں رکاوٹ کے ساتھ ساتھ بیٹھے بٹھائے اپنی آخرت برباد کرنے کے مترادف ہے۔ اگر آپ کو دین کی اہم معلومات حاصل کرنے میں دلچسپی نہیں ہے تو آپ جوابات نہ پڑھا کریں، ویسے بھی جواب بلاگ میں ہوتا ہے، جسے دلچسپی ہوتی ہے وہ لنک کھول کر مسئلہ پڑھ لیتا ہے، جنہیں دلچسپی نہیں ہے یا جو اس مسئلہ سے واقف ہے وہ اسے چھوڑ دیتا ہے، لیکن کسی کا اس پر بلاوجہ اعتراض کرکے آخرت کا مؤاخذہ مول لینا بڑی بدبختی ہے۔

خیر آپ نے تو اپنے دل کی بات اچھے انداز میں رکھی جس کے لیے بندہ مشکور ہے، اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین بدلہ عطا فرمائے۔ لیکن ایک آدھ کم علموں نے اس پر اعتراض جتایا ہے اور درج ذیل روایت کو یہاں دلیل بنانے کی ناکام کوشش بھی کی ہے۔

عبداﷲ بن جعفر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : أَجْرَؤُكُمْ عَلَى الْفُتْيَا أَجْرَؤُكُمْ عَلَى النَّارِ۔
تم میں فتویٰ دینے پر وہی جری ہوگا، جو جہنم پر جری ہوگا۔ (دارمی)

ایسے لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ حدیث شریف اُس وقت کے حالات کے مطابق ہے جب براہِ راست قرآن و حدیث سے استدلال کرکے مسائل کا حل بیان کیا جاتا تھا، جو ہر ایک کے بس کی بات نہیں تھی، یہ کام عبقری شخصیات مثلاً عبداللہ ابن مسعود اور عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہم جیسے افراد کا تھا۔ لیکن بعد میں جب چاروں مسالک کے ائمہ اور ان کے شاگردوں نے اپنی اپنی فقہ کو مدون ومرتب کردیا اور تمام مسائل کا حل یا مسائل کو حل کرنے کے اصول وضوابط بیان فرما دیئے، تو اب یہ بات نہیں رہی کہ زیادہ فتوی دینے والا جہنم پر جری ہوگا، کیونکہ اب وہ خالص اپنے علم وفہم پر اعتماد نہیں کررہا ہے، بلکہ سینکڑوں فقہاء کے بیان کے گئے مسائل کو بیان کررہا ہے یا ان کے اصول وضوابط سے استفادہ کرتے ہوئے کوئی مسئلہ بیان کررہا ہے۔ کیونکہ اگر خدانخواستہ صرف فتوی نویسی کی کثرت پر ہی یہ وعید ہوتی تو پھر ہر مسلک کے اکابر علماء کے فتاوی جو پچیسوں جلدوں میں آج موجود ہیں تو کیا یہ علماء بھی اس وعید کے مستحق ہوں گے؟ کیا انہیں بھی یہی کہا جائے گا وہ فتوی دینے پر حریص تھے اور کیا وہ بھی جہنم میں جانے کے لیے جری تھے؟ جبکہ ان کی فتوی نویسی کی عمر پر اگر ان کے فتاوی کو تقسیم کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے ایک دن میں بیسیوں فتاوی بھی لکھے ہیں، جبکہ بندہ تو ایک دن میں دو سے زیادہ جواب لکھتا ہی نہیں ہے۔ پھر کبھی کئی کئی دن ناغہ بھی ہوتا ہے۔

معلوم ہوا کہ یہ اعتراض مبنی بر جہالت یا ان کی قلبی اور ذہنی بیماری کی پیداوار ہے، اور کچھ نہیں۔ ایسے لوگوں کو اپنے علمی، ذہنی اور قلبی کیفیت کا محاسبہ کرنا چاہیے۔

اخیر میں تحديث بالنعمت کے طور پر بتانا چاہتے ہیں کہ الحمدللہ ہمارے بلاگ پر وزٹ کرنے والوں کی تعداد روزآنہ کم از کم دو ہزار ہوتی ہے، جو کسی دن پانچ چھ ہزار بھی ہوجاتی ہے، دسیوں ممالک میں ہمارے جوابات پڑھے جارہے ہیں۔ دو سو سے زائد سنجیدہ عصری اور دینی تعلیم یافتہ شخصیات کے مثبت اور حوصلہ افزا تاثرات ہمارے پاس محفوظ ہیں، جو ہمارے کام میں بڑی تقویت کا باعث ہیں، لہٰذا اس طرح کے کسی بھی اعتراض سے اب الحمدللہ ذرا بھی حوصلہ پست نہیں ہوتا، بلکہ کام میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے، اور اللہ نے چاہا تو ہوتا رہے گا۔ یہ قافلہ دارالافتاء کے ایک گروپ سے چار گروپ تک پھیل گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اب بھی بحسن وخوبی چل رہا ہے۔

اللہ تعالٰی ہم سب کو خیر کے کاموں میں ایک دوسرے کا معاون ومددگار بنائے، رکاوٹ بننے اور حوصلہ شکنی کرنے سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین ثم آمین

13 تبصرے:

  1. ماشاء اللہ اللہ تعالیٰ آپ کی اس طرح کی کوشش کو قبول فرمائے۔ ۔
    آصف امان

    جواب دیںحذف کریں
  2. ماشاء اللہ، جزاکم اللّٰہ خيراً و احسن الجزاء ،بہترین انداز میں رہنمائی فرمائی، اللّٰہ تبارک و تعالٰی آپ کو بہترین جزائے خیر عطا فرمائے علم میں اضافہ فرمائے، مزید آگے اس سے بہتر رہنمائی کی سعادت نصیب فرمائے، آمین

    جواب دیںحذف کریں
  3. آپ کی یہ تحریر بہت پسند آئی

    اللہ پاک آپ کے علم میں عمر میں خوب برکت دے
    آمین ثم آمین یا رب العالمین

    جواب دیںحذف کریں
  4. الحمدللہ اچھا کام کررہے ہیں اللہ قبول فرمائے آمین

    جواب دیںحذف کریں
  5. کام اچھا ہے لیکن کبھی کبھی ایسا کہو کی اتفاق ہوجاتا ہے کی شہر میں بڑے علماء کچھ کہتے ہیں پھر لوگ اسکا استفتاء تیار کرتے ہیں پھر آپ کا جواب ایسا آتا ہے جس میں بلا وجہ کی مخالفت ہوجاتی ہے
    حالانکہ تطبیق بھی ایک حل ہے اور یہ کی جانی چاہیئے تاکہ کسی کے وقار کو ٹھینس نا پہنچے

    جواب دیںحذف کریں
    جوابات
    1. ایسے جواب کی طرف نشاندہی فرمائیں۔

      بلاوجہ کی مخالفت کی بھی وضاحت فرمائیں۔

      حذف کریں
  6. Mufti sahab you are doing great work...hamare gaon walon ki aadat hai har baat me query nikalna...don't listen to them and keep doing good works...

    جواب دیںحذف کریں
  7. ماشاءاللہ اللھم زد فزد اللہ تعالیٰ مزید ترقیات عطاء فرمائے اور ہر قسم کے شرورفتن سے حاسدو کے حسد سے آپ کی پوری حفاظت فرمائے آمین

    جواب دیںحذف کریں
  8. نفیس فاروقی14 جون، 2021 کو 12:25 AM

    دین کسی ڈھکی چھپی چیز کا نام تو ھے نہیں کہ اس کے امور کو مخفی رکھا جائے. واقف کرانے اور تشہیر میں بڑا فرق ہوتا ہے. اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کہ جو کسی وجہ سے پوچھ نہیں پاتے وہ پڑھ کر استفادہ حاصل کر لیتے ہیں.

    جواب دیںحذف کریں

بوگس ووٹ دینے کا حکم