سوال :
جمعۃ الوداع کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اس کو کہنا، سمجھنا اور برتنا کہاں تک درست ہے؟ جب رمضان کے روزوں کے بدلے اللہ تبارک و تعالیٰ نے "عید" کا تحفہ دیا ہے تو رمضان المبارک کے گزرنے والے ایام کا غم کرنا کہاں تک درست ہے؟
(المستفتی : ڈاکٹر شفیق، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : مذہب اسلام میں عید اور بقرعید کے دن کو خصوصیت کے ساتھ منانا ثابت ہے، اور ان کے علاوہ ایام تشریق کے تین دن بھی زیادہ خوشی اور اہمیت کے ایام ہیں، یہ پانچ دن اسلام کے ایسے تہوار اور ایسے خوشی کے ایام میں جن میں روزہ رکھنا بھی جائز نہیں، اس کے بعد ہفتہ میں ایک دن یعنی جمعہ کا دن اہمیت کا حامل ہے، ہرجمعہ کو نیا کپڑا یا دھلا ہوا کپڑا پہننا، اسی طرح عطر لگانا اور غسل کرنا مستحب و مسنون ہے؛ لیکن رمضان کے آخری جمعہ جس کو عام لوگ جمعۃ الوداع کہتے ہیں، اس کو پورے سال کے دوسرے جمعات کے مقابلہ میں الگ سے کوئی خصوصیت حاصل نہیں، اس لئے اس کو الگ سے اہمیت دینا شریعت اسلام کے اصول و قوانین اور شعائر سے ناواقفیت کی بات ہے۔
اسی طرح رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو ’’الوداع والفراق والسلام یا شہر رمضان‘‘ وغیرہ کے الفاظ سے خطبۃ الوداع پڑھنا حضرت سید الکونین علیہ السلام، خلفاء راشدین اور ائمہ مجتہدین سے ثابت نہیں ہے، اس کو اکابر اہل فتاوی نے مکروہ اور بدعت لکھا ہے، ابوالحسنات حضرت مولانا عبد الحی لکھنؤیؒ نے مجموعۃ الفتاوی اور خلاصۃ الفتاوی ۴؍۳۲۹ کے حاشیہ میں اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ نے فتاوی رشیدیہ ۱۲۳میں، اور حضرت تھانویؒ نے امداد الفتاوی ۱؍۶۸۵میں، اورحضرت مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند، مفتی عزیز الرحمن صاحبؒ نے فتاوی دارالعلوم ۵؍۹۶ میں، اور فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی نے فتاوی محمودیہ مطبع ڈابھیل ۸؍۲۹۶، مطبع میرٹھ ۱۲؍۴۱۶ میں، اور مفتی شفیعؒ نے امداد المفتیین ۴۰۴ میں بدعت اور مکروہ لکھا ہے۔ اس لئے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو ’’الوداع والفراق والسلام یاشہر رمضان‘‘ وغیرہ کے الفاظ سے خطبہ پڑھنا ترک کردینا چاہئے۔ (فتاویٰ قاسمیہ : ٩/٤٣٠)
مفتی شکیل منصور القاسمی لکھتے ہیں :
رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو کسی بھی طرح کی کوئی فضیلت حاصل ہے اور نہ اس دن کے روزے کا دوسرے دنوں کے روزےکی بہ نسبت زیادہ ثواب ہے۔ رمضان کے آخری جمعہ کو الوداعی جمعہ سمجھنا، برتنا اور اس پہ حسرت و افسوس کا اظہار کرنا یا اس دن نئے کپڑے نئے قسم کے کھانے یا کسی خاص عبادت کا اہتمام کرنا بالکل ہی جاہلانہ تصور ہے دین سے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کرام سے ایسا کچھ بھی ثابت نہیں ہے۔
رمضان کے ہر روزہ کے افطار کے وقت اور خصوصاً عید الفطر کے دن روزہ داروں کے لئے مسرت وشادمانی کا وقت ہے : وَلِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ فَرْحَةٌ حِينَ يُفْطِرُ وَفَرْحَةٌ حِينَ يَلْقَى رَبَّهُ وَلَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ۔ (صحيح البخاري : 7054)
پھر رمضان کے آخری جمعے میں حسرت و افسوس کا اظہار کرنا یا جمعہ کے خطبہ میں " الوداع الوداع " یا " الفراق الفراق یا شھر رمضان " جیسے کلمات پڑھنا کیونکر درست ہوسکتا ہے؟
رمضان تو ہر سال آتا ہے اور آئے گا !
اس کے انوار وبرکات کی فصل بہاراں ہر سال لگے گی !
رحمتوں کی بارش ہر سال برسے گی، پھر اسے الوداع کہنے کا کیا مطلب ہے؟
ہجرت کے دسویں سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلا اور آخری حج ادا فرمایا اس لئے اس حج کو "حجة الوداع " کہتے ہیں۔لیکن آپ کے آخری رمضان کے آخری جمعہ کو "جمعة الوداع " اور آپ کی آخری نماز کو "صلوة الوداع " نہ آپ نے خود کہا، نہ کسی صحابی نے کہا، نہ تابعی نے، نہ متقدمین ومتاخرین میں سے کسی امام مجتہد نے۔ لہٰذا رمضان کے آخری جمعہ کے لئے وداعی جمعہ کا تصور اور اس موقع سے اظہار افسوس کے کلمات واشعار یا اس دن کسی مخصوص عبادت وثواب یا لباس کا اہتمام غیر شرعی سوچ اور دین میں نئی بات کا اضافہ ہے جو بہرحال قابل ترک ہے۔
فتاوی دارالعلوم زکریا میں ہے :
خطبۂ وداع کا حاصل رمضان کے ختم ہونے پر افسوس وحسرت کا اظہار ہے ، لہٰذا یہ خلاف شریعت اور بدعت ہے، اس لیے کہ کسی عبادت کی ادائیگی کے بعد خوشی اور شکر ادا کرنے کا حکم ہے، رنج وغم اور ماتم کرنے کی اجازت نہیں ہے، اس لیے رمضان کے ختم ہونے پر اظہار مسرت اور شکر الٰہی کے لیے شریعت نے عید کا دن مقرر کیا، اور محبوب رب العالمین جناب رسول اللہ ﷺ فداہُ روحی وجسمی نے ارشاد فرمایا : کہ جب نیکی کرکے تم کو خوشی ہو اور برائی کرکے رنج ہو، تو تم مومن ہو، نیز آپ ﷺ نے دعافرمائی : کہ اے اللہ ! مجھے نیکی کرکے مسرور ہونے والوں میں سے بنا۔
بناء ً علی ہذا عبادت حج کے رکن اعظم وقوف عرفہ کی ادائیگی کے دوسرےدن مسرت و تشکر کے طور پر اللہ رب العزت کی طرف سے ضیافت اور قربانی مشروع ہوئی، اور حج تمتع وقران کے بعد دوعبادتوں کی توفیق کے شکریہ میں دم واجب کیا گیا۔
خلاصہ یہ ہے کہ شریعت نے عبادت کے اختتام پر خوشی اور شکریے کو ضروری قرار دیا ہے، اور رمضان کا آخری جمعہ بھی خوشی اور شکریہ کا ہے۔ (١/٢٢٧)
درج تفصیلات سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ جمعۃ الوداع کا شریعت میں کوئی تصور نہیں ہے، یہ ایک نئی اصطلاح ہے جو خیرالقرون اور سلف صالحین سے ثابت نہیں ہے۔ لہٰذا جمعۃ الوداع کے نام پر خصوصیت سے کوئی عمل کرنا درست نہیں ہے۔ نیز رمضان المبارک کے گزرنے کا غم کرنے کے بجائے بقیہ ایام کو اللہ تعالیٰ کی مرضیات کے مطابق گزار کر اپنی مغفرت کا سامان کرنا چاہیے کہ یہی اصل کرنے کا کام ہے۔
ومن الأمور المحدثۃ ما ذاع في أکثر بلاد الہند، والدکن وغیرہما من تسمیۃ خطبۃ الجمعۃ الأخیرۃ، بخطبۃ الوداع و تضمینہا جملا دالۃً علی التحسر بذہاب ذلک الشہر، فیدرجون فیہا جملاً دالۃً علی فضائل ذلک الشہر، ویقولون بعد جملۃ أو جملتین، الوداع والوداع أوالفراق، والفراق، لشہر رمضان أو الوداع یاشہر رمضان، و نحو ذلک من الألفاظ الدالۃ علی ذلک۔ (مجموعۃ رسائل اللکنوي، بحوالہ حاشیۃ
فتاوی محمودیہ ڈابھیل ۸/۲۹۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 رمضان المبارک 1442
جزاکم اللہ خیراً کثیرا...
جواب دیںحذف کریںجذاک اللہ
جواب دیںحذف کریںassalamu alaikum mufti sahab k koi musalmaan kisi kaafir ki arthi ko khanda ya arthi ko jala sakta h or agar khanda diya ya uski arthi ko jalaya jaesa k aaj hamare mulk me dekha jaara h agar aesa koi musalmaan kare to shariyat ka Kia hukm h
جواب دیںحذف کریں