سوال :
مفتی صاحب! نذر معین کا کیا حکم ہے؟ یعنی نذر معین کو کہاں خرچ کرنا ہے۔ مثلاً ایک شخص نے نذر مانا کہ میرا فلاں کام ہو جائے تو میں ایک ہزار روپے مسجد میں دونگا اب یہ نذر معین کو کہاں خرچ کرنا ہے؟
(المستفتی : عباد اللہ، تھانہ)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : اگر کوئی شخص باقاعدہ زبان سے یہ الفاظ ادا کرے کہ میرا فلاں کام ہوجائے گا تو مسجد میں ایک ہزار روپے دوں گا تو یہ کام ہوجانے کی صورت میں اس پر ایک ہزار روپے خرچ کرنا واجب ہوگا۔ لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ یہ رقم مسجد میں ہی خرچ کرے بلکہ مسجد کے بجائے کسی غریب مسکین یا مدرسہ میں بھی دیدینے سے بھی منت پوری ہوجائے گی۔ البتہ بہتر یہی ہے کہ وہ یہ رقم مسجد میں خرچ کرے۔ اور اگر صرف دل میں ارادہ کیا ہے باقاعدہ زبان سے الفاظ ادا نہیں کیے تو اس پر کچھ بھی واجب نہیں۔
قَالَ فِي شَرْحِ الْمُلْتَقَى : وَالنَّذْرُ عَمَلُ اللِّسَانِ۔ (شامي : ٢/٤٣٣)فقط
(قَوْلُهُ فَإِنَّهُ لَا يَجُوزُ تَعْجِيلُهُ إلَخْ) وَكَذَا يَظْهَرُ مِنْهُ أَنَّهُ لَا يَتَعَيَّنُ فِيهِ الْمَكَانُ وَالدِّرْهَمُ وَالْفَقِيرُ لِأَنَّ التَّعْلِيقَ إنَّمَا أَثَّرَ فِي تَأْخِيرِ۔ (شامی : ۲/۴۳۷)
وإن کان مقیدا بمکان بأن قال للہ تعالیٰ علی أن أصلی رکعتین فی موضع کذا، أو أتصدق علی فقراء بلد کذا، یجوز أداؤہ فی غیر ذٰلک المکان عند أبی حنیفۃ و صاحبیہ لأن المقصود من النذر ہو التقرب إلی اللہ عز وجل ولیس لذات المکان دخل فی القربۃ۔ (الفقہ الاسلامی و أدلتہ : ۴/ ۲۵۶۸، دارالفکر)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
04 شوال المکرم 1442
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں