سوال :
مفتی صاحب! ایک شخص نے نکاح کے بعد اپنی بیوی سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کا ساتھ نہیں دے سکتا آپ مجھے معاف کریں اور اپنا نکاح کہیں اور کرلیں۔ ایسا کہنے سے طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟ جواب مطلوب ہے۔
(المستفتی : محمد کاشف ملک، روڑکی)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : صورتِ مسئولہ میں بیوی سے فون پر کہے گئے یہ الفاظ " اپنا نکاح کہیں اور کرلیں" کنایہ کے ہیں، جن سے طلاق واقع ہونے کے لیے طلاق کی نیت ہونا ضروری ہے۔ لہٰذا اگر ان الفاظ سے طلاق کی نیت تھی تو ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی۔
ایک طلاق بائن کی صورت میں اس شخص کی بیوی اسکے نکاح سے نکل جائے گی، اب وہ کسی اور سے بھی نکاح کرسکتی ہے، اور چاہے تو نئے مہر کے ساتھ اس شخص سے بھی نکاح کرسکتی ہے۔ اس صورت میں شرعی حلالہ کی ضرورت نہ ہوگی۔ بشرطیکہ اس سے پہلے دو طلاق نہ ہوئی ہو۔
اگر طلاق کی نیت سے یہ الفاظ نہیں کہے گئے ہیں تو اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔
ولو قال : اذہبي فتزوجي، وقال لم أنو الطلاق لا یقع شيء؛ لأن معناہ أن أمکنک إلی قولہ ویؤید ما في الذخیرۃ اذہبي وتزوجي لایقع إلا بالنیۃ۔ (شامي : ۴/۵۵۱)
قولہ: لایلحق البائن البائن، المراد بالبائن الذی لایلحق ہو ما کان بلفظ الکتابۃ۔ (شامي : ۴/۵۴۲)
أو تزوج ثانیاً في العدۃ۔ وفي الشامیۃ : فیما لو طلقہا بائناً بعد الدخول، ثم تزوجہا في العدۃ وجب کمال المہر الثانی بدون الخلوۃ والدخول۔ (درمختار مع الشامي، باب المهر،۴/۲۳۳)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
10 شوال المکرم 1442
جزاکم اللہ خیراً کثیرا
جواب دیںحذف کریںواضح الفاظ میں تشریح فرمائی جزاک اللہ خیرا احسن الجزاء فی الدارین عبدالشکور پربھنی مہاراشٹر
جواب دیںحذف کریں