سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ میرے بینک اکاؤنٹ میں کچھ سود کی رقم جمع ہوگئی ہے، اب میں اسے کہاں خرچ کروں؟ براہ کرم اس کے مصارف بیان فرما دیں۔
(المستفتی : محمد شاہد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بینک اکاؤنٹ میں جمع شدہ رقم سے ملنے والی یا انشورنس پالیسی مکمل ہونے پر ملنے والی سود کی رقم کو اس کے مالک کو لوٹانا ضروری ہے، یعنی جہاں سے یہ رقم آئی ہے وہیں واپس کردیا جائے لیکن اس اصول کو اختیار کرنے میں ہماری سودی رقم کو اغیار اسلام دشمنی کے کاموں میں لگادیتے ہیں، اس لیے دوسرے مصرف میں یہ رقم صَرف کی جائے یعنی اس رقم کو بلا نیتِ ثواب فقراء اور مساکین میں تقسیم کرنا چاہئے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ مالِ حرام سے صدقہ کرنا بذاتِ خود گناہ ہے اس لیے اس رقم پر ثواب کی نیت نہیں رکھنا چاہیے بلکہ اس وبال کو اپنے سر سے اتارنے کی نیت ہو۔ فقراء اور مساکین سے مراد یہاں مستحقِ زکوٰۃ مسلمان ہیں، اگرچہ غریب غیرمسلم کو بھی سودی رقم دینا جائز ہے، لیکن چونکہ مسلمانوں میں خود غرباء کی ایک بڑی تعداد ہے اس لیے مسلمانوں کو ہی ترجیح دینا چاہیے۔
اسی طرح بینک کے سود کی رقم سے خود کے انکم ٹیکس اور جی ایس ٹی جیسے غیرواجبی اور ظالمانہ ٹیکسوں میں دینے کی محققین علماء نے اجازت دی ہے، اور چونکہ بینکوں کا تعلق حکومت سے ہوتا ہے، چنانچہ جب سود کی رقم انکم ٹیکس میں دی جائے گی تو وہ اسی کے رب المال کی طرف لوٹے گی۔ اس سلسلے میں ہمارا تفصیلی مضمون درج ذیل لنک سے ملاحظہ فرمائیں۔ انکم ٹیکس ایک ظالمانہ محصول
نوٹ : عوام میں یہ بات مشہور ہے سودی رقم کو گندگی کی جگہوں مثلاً بیت الخلاء، طہارت خانہ، نالیوں کی تعمیر اور درستگی میں لگانا جائز ہے۔ جبکہ یہ بات بالکل غلط ہے، ایسا کرنا گویا سودی رقم کا ذاتی استعمال کرنا ہے، لہٰذا اس سے بچنا ضروری ہے، سودی رقم کا مصرف وہی ہے جو اوپر بتایا گیا ہے۔
عن أبي ہریرۃؓ قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: إن اﷲ طیب لا یقبل إلا طیباً۔ (مسلم شریف، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب وتربیتہا، رقم : ۱۰۱۵)
أما لو أنفق في ذلک مالاً خبیثًا سببہ الخبیث والطیب فیکرہ؛ لأن اﷲ لا یقبل إلا الطیب۔ (شامي : ۱/۶۵۸)
لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إن تعذر الرد علی صاحبہ۔ (شامي : ۶؍۳۸۵)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 شعبان المعظم 1442
یہ تبصرہ مصنف کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
جواب دیںحذف کریںجزاک اللہ خیرا
جواب دیںحذف کریں