سوشل میڈیا پر ایک وظیفہ بہت تیزی وائرل ہورہا جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کے بعد تین مرتبہ سورہ فتح پڑھ لی جائے تو پورا سال روزی کا انتظام ہوجاتا ہے۔
معلوم ہونا چاہیے کہ سورہ فتح کی یہ فضیلت قرآن و حدیث اور صحابہ کرام سے ثابت نہیں ہے، نہ ہی یہ عمل شرعاً فرض، واجب، مسنون، اور مستحب ہے، بلکہ یہ علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کے مجربات میں سے ہے، یعنی انہوں نے تجربہ کیا ہوگا انہیں اس کا فائدہ نظر آیا تو اسے لکھ دیا، لہٰذا کسی مجرب عمل کو اگر سنت اور ضروری سمجھ کر نہ کیا جائے تو انفرادی طور پر اس پر عمل کی گنجائش ہوتی ہے، لیکن باقاعدہ اس کی دعوت چلانا درست نہیں ہے۔
نیز اس بات کا بھی خیال رہے کہ سوشل میڈیا کے اس دور میں جبکہ منٹوں میں ایسے وظائف پوری دنیا میں پھیلا دئیے جاتے ہیں تو بعید نہیں ہے کہ شریعت کی باریکیوں سے ناواقف عوام اس کی پُر کشش فضیلت کی وجہ سے اسے اس وقت کا لازمی جزو سمجھ لیں۔ کیونکہ ہم نے کئی لوگوں سے سنا ہے کہ بعض گھروں میں تاکیدًا اس وظیفہ پر عمل کروایا جاتا ہے، اور باقاعدہ پورا گھر ایک ساتھ بیٹھ کر اس کا اہتمام کرتا ہے۔ چنانچہ ایسے ہی مواقع کے لیے فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ کسی مستحب عمل کو اگر لوگ ضروری سمجھنے لگیں تو اُن لوگوں کے حق میں یہ عمل مکروہ بن جاتا ہے، جبکہ مذکورہ عمل تو صرف مجرب ہے، مستحب بھی نہیں ہے۔ لہٰذا ایسے حالات میں اس عمل کو نظر انداز کردینا بہتر ہے۔ (١)
عوام کا ایک بڑا طبقہ تو ایسا ہے کہ وہ ایسے پُر کشش فضائل والے وظائف کو ہاتھوں ہاتھ لیتا ہے۔ اور اس بات کی تحقیق بھی ضروری نہیں سمجھتا کہ اس وظیفہ کی حیثیت ہی معلوم کرلی جائے، نیز یہ کہ اس سلسلے میں احادیث میں اگر کوئی دعا یا ذکر ہوتو وہ معلوم کرلیا جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔
روزی میں برکت اور وسعت کے سلسلے میں ہمارے پاس تین نبوی نسخے موجود ہیں۔ لیکن اس کی دعوت کبھی اس طرح بڑے پیمانے پر نہیں چلائی گئی۔ جس طرح اس مجرب عمل کی چلائی جارہی ہے کہ واٹس اپ کے ہر گروپ میں یہ وظیفہ کئی کئی مرتبہ شیئر کیا جارہا ہے، اور اسے بڑھا چڑھا کر بھی بیان کیا جارہا ہے۔
روزی میں برکت کے نبوی نسخے ملاحظہ فرمائیں :
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص ہرشب میں سورہٴ واقعہ پڑھتا ہے وہ کبھی بھی فاقے کی حالت کو نہیں پہنچتا، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ اپنی لڑکیوں کو حکم دیا کرتے تھے کہ وہ ہرشب میں یہ سورۃ پڑھا کریں۔ (بیھقی) مغرب اور عشاء کے درمیان یہ سورت پڑھنی چاہیے۔
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا جو شخص اس بات کا خواہش مند ہو کہ اس کی روزی میں برکت ہو اور عمر دراز ہو تو اس کو چاہیے کہ صلہ رحمی کرے (یعنی اپنے عزیز واقا رب کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرے)۔ (ابوداؤد)
حضرت ام سلمہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نماز فجر کے بعد یہ دعا فرماتے تھے :
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا وَرِزْقًا وَاسِعًا وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا
اے اللہ! میں تجھ سے علم نافع، عمل مقبول اور کشادہ رزق کا سوال کرتا ہوں۔ (مسند احمد)
چند دنوں پہلے پاکستان کے ایک جید عالم اور محقق حضرت مولانا مفتی عبدالباقی صاحب اخونزادہ دامت برکاتہم نے حضرت حکیم اختر رحمہ اللہ کے خلیفہ حضرت فیروز میمن صاحب کی خانقاہ میں حاضری دی اور وہاں کے احوال حضرت مفتی صاحب یوں قلمبند فرماتے ہیں۔
دوران درس مفتی فرحان صاحب نے اصحاب کہف کے ناموں کے حوالے سے کچھ مجربات ارشاد فرمائے لیکن اس سے قبل اس بات کی وضاحت کی کہ استاد محترم مفتی نعیم صاحب نے فرمایا کہ اصل تو مسنون اعمال جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں ان کو معمول بنایا جائے کہ وہی اصل ہیں، البتہ کبھی کبھار ان مجربات پر عمل کرنے کے برکات کا بھی انکار نہیں۔
کھانے کے دوران بندہ نے حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کیا کہ اس بات سے آپ اور مفتی نعیم صاحب کیلئے دل سے دعا نکلی کہ خانقاہی نظام میں اس بات کو بیان کرنا بہت ضروی ہے کیونکہ اب لوگوں نے مستندات سے زیادہ مجربات کو ترجیح دینی شروع کی اور مسنونات کا تذکرہ ختم ہوتا جارہا ہے۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ میرے شیخ رحمہ اللہ ان معاملات میں بڑی شدت فرمایا کرتے تھے کہ اصل تو مشکوہ نبوت (حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات مبارک) سے نکلے ہوئے اعمال اور کلمات ہیں، اور فرمایا کہ حضرت حکیم اختر صاحب رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ بادشاہ کا تحفہ بہتر ہے یا کسی خادم کا؟ عرض کیا یقیناً بادشاہ کا تحفہ بہتر ہے۔ فرمایا سرور کونین علیہ السلام بادشاہوں کے بادشاہ ہیں انہوں نے جو امت کو دیا وہ چھوڑ کر خادموں کی باتوں کو زیادہ اہمیت دینا درست نہیں۔ (روداد مکمل ہوئی)
لہٰذا اگر کوئی مذکورہ بالا تین نبوی نسخوں پر عمل کرتے ہوئے اس وظیفہ پر بھی عمل کرلے تو کوئی حرج نہیں۔ لیکن اگر بادشاہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم) کے ہدیہ اور تحفہ کو چھوڑ کر خادم کے تحفہ کو اہمیت دے تو یہ بات شرعاً اور عقلاً بھی مناسب نہیں ہے۔ اور ہم یقین کے ساتھ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ حضرت علامہ انور شاہ کشمیری نور اللہ مرقدہ اگر اِس وقت حیات ہوتے اور لوگوں کا اس وظیفے کے تئیں جنون اور مسنون دعاؤں اور اذکار سے متعلق غفلت دیکھ کر ضرور اس بات سے منع فرما دیتے کہ اس وظیفہ کو اہمیت دی جائے اور اس کی باقاعدہ دعوت چلائی جائے۔
اللہ تعالٰی ہم سب کو مسنون دعاؤں اور اذکار کا اہتمام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور ہر عمل کو اس کے درجہ پر رکھتے ہوئے عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
١) الإصرار علی المندوب یبلغہ إلی حد الکراہۃ۔ (سعایۃ : ۲؍۲۶۵، الدر المختار، باب سجدۃ الشکر / قبیل باب صلاۃ المسافر، ۲؍۵۹۸)
قال الطیبي : وفیہ من أصر علی أمر مندوب وجعلہ عزمًا، ولم یعمل بالرخصۃ فقد أصاب من الشیطان من الإضلال، فکیف من أصر علی أمر بدعۃ أو منکر۔ (مرقاۃ المفاتیح : ۲؍۱۴)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
30 شعبان المعظم 1442
ماشاءالله
جواب دیںحذف کریںاصلاح کے لئے بہت ضروری ہے
اللّہ تعالیٰ آپ سے دین کی خدمات لے
آمین
ماشااللہ بہت خوب
حذف کریںاللہ تعالی مفتی عامر ص کے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے اور ہر شرور وفتن سے محفوظ فرمائے آمین یا ارحم الراحمین
زبردست
حذف کریںماشاء اللہ...
جواب دیںحذف کریںآپ رہنمائی ۔ ماشاءاللہ کیا خوب
جواب دیںحذف کریںالسلام علیکم میرے دوستوں میں بات چل رہی تھی کہ گالی دینے وضوں ٹوٹ جاتا ہے ایک دوست بولا نہیں ٹوٹتا ایک دوست بولا بیڑی پینے سے بھی وضوں ٹوٹ جاتا ہے برائے کرم قران وحدیث کی روشنی میں صیح کیا ہے بتائیے
جواب دیںحذف کریںالسلام علیکم میرے دوستوں میں بات چل رہی تھی کہ گالی دینے وضوں ٹوٹ جاتا ہے ایک دوست بولا نہیں ٹوٹتا ایک دوست بولا بیڑی پینے سے بھی وضوں ٹوٹ جاتا ہے برائے کرم قران وحدیث کی روشنی میں صیح کیا ہے بتائیے
حذف کریںجواب دیں
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
حذف کریںدونوں چیزوں سے وضو نہیں ٹوٹتا، البتہ گالی دینا گناہ کبیرہ ہے اور بیڑی پینے سے منہ میں بدبو پیدا ہوتی ہے، لہٰذا ان چیزوں کی وجہ وضو کی برکات اور نورانیت پر اثر پڑتا ہے۔
واللہ تعالٰی اعلم
agar koi gali & smoke karne baad namaz padhae to uski imamat aur muqtadi ki namaz qubul hogi.
حذف کریںRahenomai Farmayen Nawazish hogi
محترم مفتی صاحب
حذف کریںالسلام علیکم
کتنے سال کے بچوں کو صف میں لگا سکتے ہیں
دیکھنے میں آیا مسجد حرم میں چھوٹے بچے بھی بڑوں کی صفوں میں لگے ہوتے ہیں وہاں کوئی نہیں ہٹاتا اس کے بر عکس ہمارے یہاں چھ سات سال کے بچے جو اچھی طرح بھی نماز پڑھتے ہیں تو کچھ بزرگ ان بچوں کو صفوں سے نکال دیتے ہیں اور کہتے ہیں بچوں کو صف میں لگانے سے پوری صف کی نماز نہیں ہوتی