سوال :
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل میں کہ چھ سال قبل ایک مسجد میں دارالافتاء قائم کیا گیا، تقریباً ایک سال دارالافتاء جاری رہا اس کے بعد مفتی صاحب کے رخصت ہوجانے کی وجہ سے دارالافتاء بند ہوگیا، چھ سال کا عرصہ ہونے کو ہے ،دارالافتاء بند ہی ہے، عام لوگوں نے اپنے مرحومین کے ایصال ثواب کیلئے جو کتابیں دارالافتاء کو وقف کی تھیں وہ گرد و غبار کی نذر ہورہی ہیں، فی الحال اسی دارالافتاء کے قریب علاقے میں دوسرا دارالافتاء قائم کیا گیا ہے، کیا اس دارالافتاء کی کتابیں اس دارالافتاء میں منتقل کی جاسکتی ہیں تاکہ جس مقصد کے لیے کتابیں وقف کی گئی تھیں وہ مقصد حاصل ہو، کتابوں سےاستفادہ بھی ہو اور کتابوں کی رقم دینے والوں کے مرحومین ثواب بھی ملے؟ نیز اتنے عرصے تک ان کتابوں سے استفادہ نہ کرنا اور دارالافتاء کو جاری کرنے کی سعی نہ کرنا یہ عمل کیسا ہے؟ اگر یہ کتابیں اسی طرح دارالافتاء میں باقی رہیں اور ان سے استفادہ نہ کیا گیا تو اس کا گناہ کس پر ہوگا؟
(المستفتی : محمد خالد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ایک مسجد میں قرآن کی تعداد اس قدر زیادہ ہوجائے، جس کی وجہ سے قرآن کریم کے بعض نسخے مہینوں اور سالوں تک تلاوت کے کام نہ آتے ہوں اور دینے والوں کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہوتو ایسی صورت میں ضرورت سے زائد نسخوں کو دوسری مسجد میں دینا جہاں قرآن کے نسخے نہیں ہوتے ہیں یا بہت ہی کم ہوتے ہیں جائز اور درست ہے۔ کیونکہ قرآن کریم مسجد میں دینے میں دینے والوں کا مقصدقرآن کے ان نسخوں میں تلاوت کرنا ہے۔ چنانچہ یہی حکم وقف کی کتابوں کا بھی ہے کہ اگر کسی دارالافتاء کے بند ہوجانے کی وجہ وہاں رکھی ہوئی کتابیں کوئی پڑھنے والا نہ ہو اور اس کے رکھے رکھے خراب ہونے کا اندیشہ ہونے لگے تو پھر اس بند ہونے والے دارالافتاء کی کتابیں دوسرے جاری دارالافتاء میں منتقل کی جاسکتی ہیں تاکہ کتابیں وقف کرنے والوں کا مقصد پورا ہو۔
جن لوگوں کو دارالافتاء کا ذمہ دار بنایا گیا تھا ان کی یہ ذمہ داری تھی کہ ایک مفتی صاحب کے رخصت ہوجانے کے بعد دوسرے مفتی صاحب کا فوراً انتظام کیا جاتا۔ اگر غفلت کی وجہ سے دوسرے مفتی صاحب کا انتظام نہیں کیا گیا اور کتابوں کے خراب ہونے کا اندیشہ ہونے لگے تو بلاشبہ یہ لوگ وقف کی املاک کو نقصان پہنچانے کے گناہ گار ہوں گے۔
لو وقف المصحف علی المسجد أی بلا تعیین أہلہ قیل یقرأ فیہ أی یختص بأہل المترددین إلیہ ، وقیل: لا یختص بہ أي فیجوز نقلہ إلیٰ غیرہ۔ (شامی، مطلب فی نقل کتب الوقف من محلہا، کراچی ۴/۳۶۶)
وقف مصحفاً علی أہل مسجد للقراء ۃ إن یحصون جاز وإن وقف علی المسجد جاز ویقرأ فیہ، ولایکون محصوراً علی ہذا المسجد وبہ عرف نقل الکتب الأوقاف من محالہا للانتفاع بہ ۔ (درمختار ، مطلب متیٰ ذکر للوقف مصرفا لابد أن یکون فیہم تنصیص علی الحاجۃ، ۶/۵۵۷)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
18 شعبان المعظم 1442
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں