سوال :
مفتی صاحب! کچھ لوگ زید کی زمین پر بہت زیادہ عرصے سے نا جائز قبضہ کئے ہوئے ہیں تو ان لوگوں کا وہاں رہنا کیسا ہے؟ قرآن حدیث کی روشنی میں تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : محمد عادل، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کسی کی زمین پر ناجائز قبضہ کرلینا اور مالک کے مطالبہ کے باوجود جگہ نہ چھوڑنا ناجائز اور حرام ہے جس پر حدیث شریف میں سخت وعید بیان کی گئی ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص کسی کی بالشت بھر زمین بھی ازراہ ظلم لے گا قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی زمین اس کے گلے میں بطور طوق ڈالی جائے گی۔
کسی کی کوئی بھی چیز خواہ وہ کم ہو یا زیادہ اسے زور زبردستی چھین لینا یا ہڑپ کر لینا نہ صرف سماجی طور پر ایک ظلم اور اخلاقی طور پر ایک بھیانک برائی ہے بلکہ شرعی طور پر بھی انتہائی سخت جرم اور گناہ ہے۔ اسلام نے انسانی حقوق کے تحفظ کا جو اعلی تصور پیش کیا ہے اور اسلامی شریعت نے حقوق العباد پر ڈاکہ ڈالنے والوں کو جن سخت سزاؤں کا مستحق قرار دیا ہے درج بالا حدیث شریف اس کا ایک نمونہ ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص کسی دوسرے کی زمین کا ایک بالشت بھر حصہ بھی زبردستی ہتھیائے گا اسے اس کے ظلم وجور کی یہ سزا دی جائے گی کہ قیامت کے دن زمین کا صرف وہی حصہ نہیں جو وہ غصب کرے گا بلکہ ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی زمین لے کر اس کے گلے میں بطور طوق ڈالی جائے گی۔
شرح السنۃ میں طوق ڈالنے کا مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص کسی کی زمین کا بالشت بھر حصہ بھی غصب کرے گا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے زمین میں دھنسائے گا چنانچہ زمین کا وہ قطعہ جو اس نے غصب کیا ہوگا اس کے گلے کو طوق کی مانند جکڑ لے گا۔ (مشکوٰۃ مترجم)
لہٰذا جن لوگوں نے زید کی زمین پر ناجائز قبضہ کرلیا ہے ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ جلد از جلد اس جگہ کو خالی کرکے زید سے معذرت کریں اور توبہ و استغفار بھی کریں۔ ورنہ آخرت میں اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے لیے تیار رہیں جو بڑی سخت ہوگی۔
عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا! ألا لا یحل مال امرء إلا بطیب نفس منہ۔ (المسند للإمام أحمد بن حنبل : ۵؍۷۲)
عن سعید بن زید بن عمرو ابن نفیل، أن أروی خاصمتہ في بعض دارہ، فقال: دعوہا وإیَّاہا، فإني سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: من أخذ شبرًا من الأرض بغیر حقہ طوقہ في سبع أرضین یوم القیامۃ۔ (صحیح مسلم، رقم : ۱۱۱۰)
لا یجوز التصرف في مال غیرہ بلا إذنہ ولا ولایتہ۔ (الدر المختار مع الشامي، کتاب الغصب / مطلب فیما یجوز من التصرف بمال الغیر ۹؍۲۹۱)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 رجب المرجب 1442
جزاک اللہ
جواب دیںحذف کریںبھت سارے افراد اپنے گھروں کے باہر پانی کی ٹانکی، کپرا دھونے کی جگہ، سائیکل، بائیک وغیرہ کھڑی کرتے ہیں اس سے راستہ چلنے والوں کو تکلیف ہوتی ہے
جواب دیںحذف کریںکیا اس کا شمار ناجائز قبضہ میں نہیں ہوتا؟