سوال :
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ دسترخوان پر سے لقمہ اٹھا کر کھانے سے نیک صالح اولاد ہوتی ہے اس میں کہاں تک سچائی ہے؟ جواب عنایت فرمائیں۔
(المستفتی : سراج الدین، ناگپور)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کھانا کھاتے ہوئے لقمہ گر جائے تو لقمہ اٹھا کر اس پر لگی ہوئی مٹی وغیرہ صاف کرکے اسے کھا لے اور شیطان کیلئے نہ چھوڑے، کیونکہ یہ کسی کو نہیں پتہ کہ برکت کھانے کے کس حصے میں ہے؟ اس لئے یہ ممکن ہے کہ اسی لقمے میں برکت ہو جو گر گیا تھا، چنانچہ اگر لقمے کو چھوڑ دیا تو ہوسکتا ہے کہ اس سے کھانے کی برکت چلی جائے، جیسا کہ حدیث شریف میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کھانا کھاتے تو اپنی تینوں انگلیوں کو چاٹتے، اور آپ نے ایک بار فرمایا : (اگر تم میں سے کسی کا لقمہ گر جائے تو اس سے صاف کرکے کھا لے، شیطان کیلئے اسے نہ چھوڑے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ پلیٹ کو انگلی سے چاٹ لیں، اور فرمایا : تمہیں نہیں معلوم کہ کھانے کے کس حصے میں برکت ہے۔
معلوم ہوا کہ دسترخوان پر گرا ہوا لقمہ صاف کرکے کھالینا برکت کا باعث ہے۔ البتہ کسی حدیث میں یہ فضیلت مذکور نہیں ہے کہ اس عمل کی وجہ سے اولاد خوب صورت اور نیک سیرت پیدا ہوتی ہے یا تکبر ختم ہوجاتا ہے۔ لہٰذا اس فضیلت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے بیان کرنا جائز نہیں ہے۔
عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا أَکَلَ طَعَامًا لَعِقَ أَصَابِعَهُ الثَّلَاثَ قَالَ وَقَالَ إِذَا سَقَطَتْ لُقْمَةُ أَحَدِکُمْ فَلْيُمِطْ عَنْهَا الْأَذَی وَلْيَأْکُلْهَا وَلَا يَدَعْهَا لِلشَّيْطَانِ وَأَمَرَنَا أَنْ نَسْلُتَ الْقَصْعَةَ قَالَ فَإِنَّکُمْ لَا تَدْرُونَ فِي أَيِّ طَعَامِکُمْ الْبَرَکَةُ۔ (صحیح مسلم، رقم : ٢٠٣٤)
قال النبی صلی اللہ علیہ و سلم : من کذب علي متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار۔ (صحیح البخاري، رقم ١٢٩١،صحیح مسلم، رقم : ٩٣٣)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
04 شعبان المعظم 1442
جزاکم اللہ خیراً کثیرا.... ماشاء اللہ
جواب دیںحذف کریںجزاکم اللہ خیرا کثیراً کثیرا
جواب دیںحذف کریں