سوال :
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین درمیان اس مسئلہ میں کہ زید ایک مسلم سماجی شخصیت ہے۔ لہٰذا سماجی مسائل، عوامی کام کاج اور جواب دہی پر اکثر غلطیاں کر بیٹھتا ہے۔ اور یہ بشری تقاضہ بھی ہے کہ اکثر غلطیاں سرزد ہوجاتی ہیں اور اس کے کسی عمل سے بعض لوگوں کو دلی تکلیف بھی پہونچتی ہے۔ اسی بشری تقاضہ کے تحت زید نے ایک مسلم، دیندار شخص کو بلا کسی خاص وجہ کے طمانچہ رسید کردیا۔ اور پھر اسے اپنی غلطی یا نادانی کا احساس ہوا اور مذکورہ شخص (زید) نے اپنے دیگر چاہنے والوں یا ایسے لوگ جو اسے موقع بہ موقع فائدہ پہونچانے کا کام کیا کرتے تھے وہ ناراض نہ ہوں اسلئے ان سے اپنی غلطی پر نادم ہوکر معافی طلب کرلی لیکن صاحب معاملہ سے کوئی معافی یا ندامت کا اظہار تک نہ کیا تو کیا زید کی معافی قابل قبول ہوگی؟ اس مسئلہ میں حقوق العباد کے تعلق سے شریعت کا کیا حکم ہے؟ کیا صاحب معاملہ سے معذرت خواہی کی کوئی ضرورت نہیں؟ قرآن و شریعت کی روشنی میں جواب دے کر مشکور و ممنون فرمائیں۔
(المستفتی : محمد صابر محمد صادق گوہر، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بلاعذرِ شرعی کسی کو کوئی تکلیف پہنچا دینا مثلاً کسی کو تھپڑ وغیرہ مار دینا شرعاً ناجائز اور حرام کام ہے۔ اگر کسی نے یہ گناہ کا کام کرلیا ہے تو اب اس پر ضروری ہے کہ وہ صاحبِ معاملہ سے براہ راست معافی مانگے اور اس گناہ پر شرمندگی اور ندامت کے ساتھ توبہ و استغفار بھی کرے۔
صورتِ مسئولہ میں اگر زید نے بغیر کسی شرعی عذر کے کسی کو طمانچہ رسید کیا ہے تو اس کا دوسروں سے معذرت کرنا کافی نہیں ہے، بلکہ براہِ راست صاحبِ معاملہ سے معافی مانگنا ضروری ہے، ورنہ عنداللہ اس کا مؤاخذہ ہوگا۔ البتہ یہاں اس مسئلہ کی مزید وضاحت کرنا ضروری ہے کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ صاحبِ معاملہ نے پہلے ہی زید کے ساتھ زیادتی کی ہو، زید نے تو اسے ایک ہی طمانچہ مارا ہے، لیکن ہوسکتا ہے کہ صاحبِ معاملہ نے زید کو پہلے ہی لہولہان کردیا ہو، اور اس کے بدلہ میں زید نے صرف ایک طمانچہ پر اکتفا کیا ہو، اگر ایسا ہے تو زید نے جو ایک طمانچہ مارا ہے وہ اس کا اس حد تک بدلا ہوگیا، اب اسے معذرت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، بلکہ صاحبِ معاملہ نے زیادتی کی ہوتو اسے چاہیے کہ وہ زید سے معذرت اور توبہ و استغفار کرے ورنہ عنداللہ مؤاخذہ کے لیے تیار رہے۔ قرآن مجید کی سورہ شورٰی کی چند آیات میں اس سلسلے میں رہنمائی موجود ہے۔
نوٹ : اس جواب کے کسی حصہ کو اپنے مطلب کے لیے استعمال کرنے والا خود اس کا ذمہ دار ہوگا اور اپنی نیت کے مطابق اللہ تعالٰی کے یہاں بدلہ پائے گا۔
قال اللہ تعالیٰ : وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ (39) وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ (40) وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُولَئِكَ مَا عَلَيْهِمْ مِنْ سَبِيلٍ (41) إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (42) وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ۔ (سورہ شوری)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
16 شعبان المعظم 1442
ماشاء اللہ
جواب دیںحذف کریںمفتی صاحب آخر میں کوئی بندہ اپنے مطلب کے لئے اس فتویٰ میں کوئی کمی نہیں زیادتی نہ کرے اس کیلئے احتیاطی پہلو بھی اپنایا
ماشاء اللہ
جواب دیںحذف کریںبہت عمدہ جواب عنایت فرمایا آپ نے
کسی کی طرفداری نھی کی بھت خوب
جواب دیںحذف کریں