سوال :
مفتی صاحب! ایک لطیفہ سوشل میڈیا پر گردش کررہا ہے جو درج ذیل ہے :
شوہر سے قرآن مجید حفظ نہیں ہورہا تھا بیگم سے دماغ کی کمزوری کی شکایت کی بیگم نے قسم اٹھاکر یقین دلایا کہ اگر وہ ایک سال میں حفظ کرلیا تو وہ اسکی دوسری شادی کروادے گی۔
پھر کیا تھا، شوہر نے چھ ماہ میں سارا قرآن مجید حفظ کرلیا اور بیگم صاحبہ نے تین دن روزے رکھ کے قسم کا کفارہ دے دیا۔
مجھے بتائیں کیا اس طریقے سے شریعت کا مذاق نہیں بن رہا؟ مطلب یہ کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے گا کہ کچھ بھی کرلو بعد میں تین روزے رکھ کر کفارہ ادا ہوجائےگا۔ آپ کے جواب منتظر ہوں۔
(المستفتی : طفیل الرحمن، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : آپ نے بالکل درست گرفت کی ہے، بلاشبہ یہ لطیفہ عوام بلکہ خواص کی طرف سے بھی شیئر کیا جارہا ہے جبکہ اس لطیفے میں متعدد شرعی قباحتیں موجود ہیں۔
سب سے پہلی بات تو یہ سمجھ لی جائے کہ بلاضرورت قسم کھانا شرعاً پسندیدہ نہیں ہے۔ اور اگر کبھی کسی جائز کام پر قسم کھائی جائے تو اس پر قائم رہنا چاہیے قسم کھا کر توڑ دینا گناہ کی بات ہے، جس کی وجہ سے آدمی پر کفارہ لازم ہوتا ہے۔ اور اگر سامنے والے کو دھوکہ دینے کی نیت سے قسم کھائی جائے اور بعد میں توڑ دی جائے تو یہ مزید گناہ کی بات ہے۔ اور اس لطیفے سے گویا اسی بات کی ترغیب مل رہی ہے کہ سامنے والے کو یقین دلانے کے لیے قسم کھالی جائے پھر قسم کا کفارہ ادا کرلیا جائے۔
مذکورہ لطیفہ میں جب تک شوہر کا زندگی سے نا امید ہوکر نکاح کرنے کا امکان باقی نہ رہے اس وقت تک بیوی کی قسم نہیں ٹوٹے گی، اور اس پر کسی قسم کا کوئی کفارہ نہیں آئے گا۔ لہٰذا لطیفہ میں جس طرح کفارہ ادا کرنے کی بات کہی گئی ہے اس سے کفارہ ادا ہی نہیں ہوگا۔
البتہ جب میاں بیوی میں سے کسی کی بھی آخری سانسیں چلنے لگے اس وقت تک بیوی نے شوہر کا دوسرا نکاح نہ کروایا ہو تب بیوی پر کفارہ لازم ہوگا، اور اگر عورت بستر مرگ پر ہوتو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ کفارہ ادا کرنے کی وصیت کرجائے۔
اور قسم کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو دو وقت پیٹ بھر کھانا کھلائے یا ان کو پہننے کے لئے ایک ایک جوڑا دے، یا ایک غلام آزاد کرے اور اگر دس مسکینوں کو دو وقت پیٹ بھر کھانا کھلانے یا ایک ایک جوڑا دینے اور غلام آزاد کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا ہو تو مسلسل تین دن روزے رکھے۔
کفارہ ادا کرنے کی آسان شکل یہ ہے کہ الگ الگ دس مسکینوں کو دونوں وقتوں کے کھانے کا پیسہ دیدیا جائے اور اللہ تعالٰی کو راضی کرنے کے لیے کثرت سے ذکر و استغفار کیا جائے اور اللہ تعالٰی سے مغفرت کی امید بھی رکھی جائے۔
نیز یہ مسئلہ بھی ملحوظ رہے کہ اگر دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلانے کی استطاعت ہو اس کے باوجود روزہ رکھ کر قسم کا کفارہ ادا کیا جائے تو کفارہ ادا نہیں ہوگا۔ لہٰذا اس طرح عوام کی غلط رہنمائی کرنے اور غلط مسئلہ کی طرف لوگوں کو ڈال دینے والے لطیفہ کا شیئر کرنا ناجائز اور گناہ ہے جس سے بچنا ضروری ہے۔
قال اللہ تعالیٰ : فَکَفَّارَتُہُ اِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَہْلِیْکُمْ اَوْ کِسْوَتُہُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلَاثَةِ۔ (سورہ مائدہ، آیت : ۸۹)
وإن شاء أطعم عشرۃ مساکین کالإطعام فی کفارۃ الظہار۔ (ہدایۃ، الأیمان، باب ما یکون یمینا و مالایکون یمینا، ۲/۴۸۱)
ولو غدی مسکینا و أعطاہ قیمۃ العشاء أجزأہ و کذا إذا فعلہ فی عشرۃ مساکین۔ (شامی، کتا ب الأیمان، مطلب : کفارۃ الیمین، ۵/۵۰۳)
وإن عجز عنہا کلہا وقت الأداء صام ثلاثۃ أیام ولاء۔ (در مختار مع الشامی : ۵/۵۰۵)
أو إطعام عشرۃ مساکین، قال فی الشامیۃ: وفی الإطعام إما التملیک أو الإباحۃ فیعشیہم ویغدیہم (إلی قولہ) وإذا غدی مسکینا وعشی غیرہ عشرۃ أیام لم یجزہ لأنہ فرق طعام العشرۃ علی عشرین کما إذا فرق حصۃ المسکین علی مسکینین (وقولہ تحقیقا أو تقدیراً) حتی لو أعطی مسکینا واحدا فی عشرۃ أیام کل یوم نصف صاع یجوز۔ (شامی : ۵/۵۰۳)
ویجوز دفع القیمۃ … ولو غداہم و عشاہم فی یوم واحد أو عشاہم فی یوم آخر أو غداہم فی یومین أو غداہم و أعطاہم قیمۃ عشائہم الخ۔ (تاتارخانیۃ ۶/۳۰۲-۳۰۳، رقم: ۹۴۳۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
06 شعبان المعظم 1442
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں