سوال :
محترم مفتی صاحب! عرض تحریر یہ ہے کہ
زید کے والدین اور اسکی بیوی کا انتقال ہوگیا اور زید لا ولد ہے!( یعنی اسکی ایک بھی اولاد نہیں ہے) اور زید کا ایک بھائی بھی تھا (ماجد) اسکا بھی زید سے پہلے انتقال ہوگیا اور والدین اور بیوی کے بعد زید کا بھی انتقال ہوگیا۔ زید کا ترکہ منقولہ غیر منقولہ جائیداد تقریباً ستر لاکھ کی ہے۔ زید کا بھائی (ماجد) کے تین لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں زید کا ترکہ اسکے بھائی کی اولادوں میں کس طرح تقسیم ہوگا؟ انکے علاوہ کوئی وارث نہیں ہے۔
زید کبھی کبھی اپنے دور نزدیک کے رشتہ داروں اور اپنے قریبی دوستوں کو کہا کرتا تھا کہ میرے مرنے کے بعد میری جائیداد مسجد مدرسوں میں دیدینا اس بات کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے اور نا تحریر ہے، صرف زبانی کہا کرتا تھا۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرما کر شکریہ کا موقع دیں۔ آپکی مہربانی ہوگی۔
(المستفتی : امین وارثی، مالیگاؤں)
-----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کسی شخص کا انتقال ہو اور اس کے رشتہ داروں میں صرف بھتیجی بھتیجہ ہوں تو اس کی میراث کے حقدار صرف بھتیجے ہوں گے، بھتیجیاں محروم ہوں گی۔ تفصیل اس اجمال ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔
بخاری شریف میں ہے :
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : میراث کے مقررہ حصے ان کے حق داروں تک پہنچادو اور جو باقی رہ جائے وہ اس مرد کے لیے ہوگا جو قرابت میں مقدم ہو۔
ایسے مرد کو شریعت کے اصطلاح میں عصبہ کہا جاتا ہے۔ یعنی عصبہ ہر اس قریبی رشتہ دار کو کہتے ہیں جو اصحاب فرائض سے مال بچنے کے بعد بقیہ سارا مال لے اور اکیلے ہونے کی صورت میں تمام مال کا حق دار بنے۔ اور بھتیجیوں کو شریعت نے ذوی الارحام میں شمار کیا ہے، عصبات میں نہیں۔ لہٰذا وہ چچا کی میراث سے محروم رہیں گی۔
صورتِ مسئولہ میں چونکہ زید کی وصیت کا کوئی ثبوت نہیں ہے، لہٰذا اس کا مکمل ترکہ ستر لاکھ تینوں بھتیجوں میں برابر برابر تقسیم ہوگا یعنی ایک بھتیجے کو 2333333.3 روپے ملیں گے۔ بھتیجیاں محروم رہیں گی۔
الحقوا الفرائض باھلھا فما بقی فلاولی رجل ذکر۔ (بخاری : کتاب الفرائض، رقم : ۶۷۳۷)
و العصبۃ کل مین یاخذ ما ابقتہ اصحاب الفرائض و عند الانفراد یحرز جمیع المال۔ (السراجی : ۹)
العصبات النسبیۃ۔۔۔ثم جزء ابیہ ای الاخوۃ ثم بنوھم وان سفلوا ثم جزء جدہ۔ (السراجی : ۱۴)
وباقی العصبات ینفرد بالمیراث ذکورھُم دون اخواتہم وھم اربعۃ ایضاً العم وابن العم وابن الاخ وابن المعتق الخ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ :٦/۴۵۱)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
20 جمادی الآخر 1442
اسلام علیکم۔۔۔۔
جواب دیںحذف کریںاور اگر بہین ہوتی تو ترکہ بہین کے حصے میں جاتا یا پھر بھتیجوں کو ہی ملتا؟
کل مال کا نصف بہن کو ملتا، بقیہ مال بھتیجوں کے درمیان برابر برابر تقسیم ہوتا۔
حذف کریںواللہ تعالٰی اعلم
زید کی بہین کو۔۔۔
جواب دیںحذف کریں