بدھ، 17 فروری، 2021

بیوہ، مطلقہ اگر عدت کی پابندیوں پر عمل نہ کرے تو؟

سوال :

مفتی صاحب ایک مسئلہ یہ ہے کہ ایک عورت جس کا نکاح ہوا تھا کچھ دنوں بعد طلاق ہوگیا، جہالت کی وجہ سے وہ عورت عدت میں نہیں بیٹھ سکیں اور اس بات کو کچھ سال گزر چکے ہیں اب اس نے کسی بیان میں سنا ہے کہ عدت میں بیٹھنا ضروری ہے تو وہ کہہ رہی ہیں کہ اگر میں اب عدت میں بیٹھنا چاہوں تو یہ کیسا ہے؟ یا اگر نہیں بیٹھ سکتی تو پھر اس کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔ جزاک اللہ خیرا۔
(المستفتی : حافظ فہد، مالیگاؤں)
-----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بیوہ عورت کے لئے عدت کی مدت چار ماہ دس دن ہیں، اور مطلقہ کی عدت کی مدت تین حیض ہیں، اور یہ ماہواری طلاق کے بعد سے شمار کی جائے گی، طلاق کے بعد تیسرا حیض جب بند ہوجائے گا، عدت کی مدت مکمل ہوجائے گی، بیوہ  اور مطلقہ ثلاثہ کے لیے عدت میں شریعت نے درج ذیل امور کی پابندیاں عائد کیں ہیں، ان کے علاوہ بقیہ جائز امورکو انجام دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ نیز عدت کی پابندیوں میں مطلقہ اور بیوہ دونوں برابر ہیں۔

بیوہ شوہر کی وفات سے لے کر چار ماہ دس دن تک سوگ کا عرصہ گزارے گی، اور مطلقہ تین حیض تک، اس دوران انہیں گھر میں رہنا چاہیے، میک اپ، زیورات کا استعمال اور شوخ لباس پہننا ان کے لیے ممنوع ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ صاف ستھری بھی نہ رہیں۔ نیز بلا ضرورتِ شدیدہ  گھر سے باہر کی سرگرمیوں سے بھی اجتناب کا حکم ہے۔ البتہ جن ملازمت پیشہ خواتین کا کوئی اور معاشی سہارا نہ ہو اور گزر بسر کا بھی کوئی متبادل انتظام نہ ہو، ان کا معاملہ الگ ہے۔ وہ ضرورت کے اصول پر دورانِ عدت میں بھی اپنی ملازمت جاری رکھ سکتی ہیں۔

صورتِ مسئولہ میں اگر اس عورت نے طلاق کے بعد تین ماہواری کے ایام مذکورہ بالا پابندیوں کے ساتھ نہیں گزارے تو وہ گناہ گار ہوئی ہے، لیکن چونکہ اصل عدت طلاق کے بعد تین ماہواری کا گزر جانا ہے، لہٰذا جب یہ مدت گزر گئی تو اس عورت کی عدت بھی مکمل ہوگئی۔ لہٰذا اب عدت کی پابندیوں کا مسئلہ معلوم ہونے کے بعد اسے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں، بس ندامت وشرمندگی کے ساتھ توبہ و استغفار کرے۔

قال اللہ تعالیٰ : وَالْمُطَلَّقَاتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ ثَلاَثَۃَ قُرُوْئٍ۔ (سورۃ البقرۃ، جزء آیت : ۲۲۷)

وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا۔ (سورۃ البقرۃ، جزء آیت : ۲۳۴)

وتعتدان أي معتدۃ طلاق وموت في بیت وجبت فیہ، ولا یخرجان منہ إلا أن تخرج أو ینہدم المنزل أو تخاف إنہدامہ أو تلف مالہا أو لا تجد کراء البیت ونحو ذٰلک من الضرورات، فتخرج لأقرب موضع إلیہ۔ (الدر المختار مع الشامي، باب العدۃ، فصل في الحداد، ۵؍۲۲۵ زکریا)

علی المبتوتۃ والمتوفی عنہا زوجہا اِذا کانت بالغۃ مسلمۃ الحداد ان تترک الطیبۃ الرغبۃ والکحل والدھن المطیب وغیر المطیب اِلا من عذر۔(ہدایہ، کتاب الطلاق، ۲/۴۰۷)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
04 رجب المرجب 1442

2 تبصرے:

  1. جزاک اللہ خیرا احسن الجزاء فی الدارین۔ عبدالشکور پربھنی مہاراشٹر

    جواب دیںحذف کریں
  2. शाकिल हुसेन शेख

    جواب دیںحذف کریں

بوگس ووٹ دینے کا حکم