سوال :
مفتی صاحب ! چار رکعت والی نماز میں اگر قعدہ اولیٰ میں بیٹھنا بھول گیا تیسری رکعت کے لئے پوری طرح کھڑا ہوگیا یاد آنے پر یا امام ہونے کی صورت میں لقمہ دینے پر بیٹھ جائے اور سجدۂ سہو کرے تو نماز کا کیا حکم ہے؟
دارالعلوم دیوبند کے فتویٰ میں ہے کہ نماز ہوجائے گی، لیکن مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم العالیہ نے اعادہ نماز کا فتویٰ دیا ہے۔ ان دونوں فتاویٰ میں تطبیق کی کیا صورت ہوگی؟ عمل کس پر کیا جائے؟
(المستفتی : مسیب رشید خان، جنتور)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : تنہا نماز پڑھنے والے اور امام دونوں کے لیے حکم یہی ہے کہ اگر وہ قعدہ اولیٰ کیے بغیر تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوجائے تو واپس قعدہ کی طرف نہ لوٹے بلکہ اخیر میں سجدۂ سہو کرکے نماز مکمل کرلے، اس کی نماز درست ہوجائے گی۔ لیکن اگر یہ قعدہ کی طرف لوٹ آئے، تب بھی راجح اورصحیح قول کے مطابق نماز بلاشبہ درست ہوجائے گی، کیونکہ قیام چھوڑکر قعدہ کی طرف آنے میں حقیقت میں فرض (قیام) کو چھوڑنا نہیں ہے بلکہ صرف موٴخر کرنا ہے، اور تاخیر فرض سے نماز فاسد نہیں ہوتی، صر ف سجدۂ سہو واجب ہوتا ہے، لہٰذا سجدۂ سہو کرلیا جائے تو نماز درست ہوجاتی ہے۔ مزید تشفی کے لیے ذیل میں چند اکابر مفتیانِ کرام اور مؤقر اداروں کے فتاوی نقل کیے جارہے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں :
فتاوی رحیمیہ میں ہے :
قعدۂ اولیٰ چھوڑ کر سیدھا کھڑا ہوجائے، یا سیدھے کھڑے ہونے کے قریب ہوجائے پھر التحیات پڑھنے کے لئے بیٹھے اس سے فرض ترک کرکے واجب کی طرف لوٹنا لازم نہیں آتا، مگر ادائیگی فرض میں تاخیر لازم آتی ہے۔ جس کا تدارک سجدۂ سہو سے ہوجاتا ہے۔ لہٰذا راجح اور حق یہ ہے کہ نماز فاسد نہیں ہوتی، سجدۂ سہو کرنا پڑے گا۔ (فتاوی رحیمیہ : ٥/١١٢)
مفتی نظام الدین اعظمی لکھتے ہیں :
قعدۂ اولیٰ میں بھول کر کھڑا ہوگیا تھا تو اب بیٹھنا نہیں چاہیے تھا لیکن جب بیٹھ گیا اور سجدۂ سہو کرلیا نماز ادا ہوگئی تھی تو نماز دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ (نظام الفتاویٰ : ٦/٨٩)
مفتی حکیم احمد حسن خان نے تحریر فرمایا ہے :
نماز ہوگئی، لیکن امام کو پہلا قعدہ چھوٹ جانے پر سیدھا کھڑا ہو جانے کے بعد بیٹھنا نہ چاہئے تھا ایسا کرکے اس نے غلطی کی ہے اسے بیٹھنا نہ چاہئے تھا بلکہ صرف آخر میں سجدۂ سہو کر لینا چاہئے۔ (فتاوی حکمت : ١/١٤٧)
مفتی شبیر احمد قاسمی تحریر فرماتے ہیں :
اگر امام یا منفرد قعدۂ اولیٰ میں بیٹھنے کے بجائے تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہوجائے پھر قعدۂ اولیٰ کی طرف لوٹ آئے تو ایسی صورت میں فقہاء نے دونوں باتیں لکھی ہیں، ایک قول کے مطابق نماز فاسد ہوجائے گی اعادہ لازم ہے۔ دوسرے قول کے مطابق نماز فاسد نہیں ہوگی اعادہ لازم نہیں، یہی قول زیادہ راجح اورقوی ہے؛ لہٰذا مذکورہ صورت میں نماز لوٹانے کی ضرورت نہیں۔ (فتاوی قاسمیہ : ٧/٦٠٦)
مفتی سلمان منصور پوری رقم طراز ہیں :
مسئولہ صورت میں جب امام قعدۂ اولیٰ بھول کر سیدھا کھڑا ہو گیا تھا، تو اس کے لئے بہتر یہی تھا کہ واپس قعدہ کی طرف نہ لوٹتا؛ بلکہ اخیر میں صرف سجدۂ سہو کرلیتا؛ لیکن وہ اگر لوٹ گیا اور پھر جب حسبِ قاعدہ نماز پوری کرکے سجدۂ سہو کرلیا، تو بھی اس کی نماز استحسانا درست ہوگی؛ لہٰذا جن صاحب نے سلام پھیرنے کے بعد کہا کہ نماز نہیں ہوئی، ان کی بات راجح قول کے خلاف ہے۔ (کتاب النوازل : ٣/٣٥٤)
دارالافتاء دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
قعدہٴ اولی میں بیٹھنے کے بجائے مکمل کھڑے ہونے کے بعد واپس تشہد کے لیے بیٹھنے سے نماز فاسد نہیں ہوتی ہے، یہی قول راجح اور مفتی ہے، ایسی صورت میں سجدہٴ سہو کرنے سے شرعاً نماز صحیح ہوجائے گی، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں جس مقتدی نے یہ کہا کہ امام صاحب کے سجدہٴ سہو کرنے سے نماز ہوجاتی ہے اس کی بات صحیح ہے۔ (جواب نمبر : 59384)
دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن کا فتوی ہے :
صورتِ مسئولہ میں اگر پہلا قعدہ بھول کر تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہوجائیں یا قیام کے قریب ہوجائیں تو واپس لوٹ کر نہیں آنا چاہیے، بلکہ آخر میں سجدہ سہو کرکے نماز پوری کرلے نماز ہوجائے گی۔ اگر کوئی شخص قعدہ بھول کر کھڑا ہونے لگا اور قیام کے قریب پہنچ کر یاد آیا کہ قعدہ رہ گیا ہے اور واپس قعدہ کی طرف لوٹ آیا اور آخر میں سجدہ سہو کرلیا تو نماز ہوجائے گی، قیام کے قریب پہنچ کر واپس قعدہ اولیٰ کی طرف لوٹنے سے راجح قول کے مطابق نماز فاسد نہیں ہوتی، البتہ سجدۂ سہو لازم ہوتا ہے۔ (رقم الفتوی : 144109202070)
درج بالا اردو فتاوی اور فقہی عبارات سے یہی واضح ہوتا ہے کہ دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہی راجح اور مفتی بہ ہے، لہٰذا اسی پر عمل کرنا چاہیے کہ اسی میں عوام کے لیے سہولت اور آسانی بھی ہے، فقیہ العصر حضرت مولانا مفتی خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم نے جو قول نقل کیا ہے اگرچہ وہ بھی بعض فقہاء نے لکھا ہے لیکن یہ قول مرجوح ہے اور اس میں تنگی بھی ہے۔
سہا عن القعود الأول من الفرض ولو عملیا ثم تذکرہ عاد إلیہ… مالم یستقم قائما في ظاہر المذہب وہو الصحیح۔ فتح۔ وإن استقام قائما، لا یعود لاشتغالہ بفرض القیام، وسجد للسہو لترک الواجب، فلو عاد إلی القعود بعد ذٰلک، تفسد صلاتہ لرفض الفرض - إلی قولہ - وقیل: لا تفسد لکنہ یکون مسیئا، ویسجد لتأخیر الواجب وہو الأشبہ، کما حققہ الکمال وہو الحق ۔ بحر (شامي : ۲؍۵۴۷-۵۴۹، زکریا)
ومن سہا وکان إماما أو منفردا عن القعود الأول من الفرض ولو عملیا، وہو الوتر عاد إلیہ، وفي الہدایۃ : والکنز، إن کان إلی القیام أقرب لا یعود وإلا عاد، فإن عاد وہو إلی القیام أقرب، سجد للسہو لترک الواجب، وإن عاد بعد ما استتم قائما، اختلف التصحیح في فساد صلاتہ، أرجحہا عدم الفساد، قال صاحب البحر: والحق عدم الفساد۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي ۴۶۶-۴۶۷، دارالکتاب دیوبند)
واِن عاد بعد استتمّ قائماً اختلف التصحیح فی فساد صلاتہ ۔ ۔ ۔ وأرجحہا عدم الفساد۔ (نور الایضاح مع المراقی : ۱۸۹، مصر )فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 جمادی الآخر 1442
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں