سوال :
امام قرأت کررہا تھا۔ درمیان میں غلطی آئی تو نماز میں شامل مقتدیوں کے علاوہ کسی اور شخص نے اس امام کو لقمہ دیا اور امام نے اس لقمہ کو قبول کرلیا تو نماز کا کیا حکم ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : لئیق احمد، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : جو شخص امام کی اقتداء میں شریک نہیں نہ ہو اس کا امام کو لقمہ دینا جائز نہیں ہے، لہٰذا اس کا بہت خیال رکھنا چاہیے کیونکہ اس کی وجہ سے بڑے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ تاہم اگر کسی ایسے شخص نے امام کو کسی غلطی یا قرأت میں بھولنے پر لقمہ دیا اور امام نے اس کا لقمہ قبول کرلیا تو امام سمیت جماعت کی نماز فاسد ہوجائے گی اور اس نماز کا اعادہ لازم ہوگا۔ لیکن اگر امام نے اپنی غلطی کی اصلاح خود سوچ کر کی ہو خواہ اس کے شبہ کو تقویت اس شخص کے لقمہ سے ملی ہو یا اس باہری لقمہ کے کچھ دیر ٹھہر کر امام نے اپنی رائے سے اس پر عمل کیا ہو تو اس صورت میں نماز فاسد نہیں ہوگی۔
وإن فتح المصلي على غير إمامه فسدت صلاته؛ لأنه تعليم وتعلم، فكان من جنس كلام الناس، إلا إذا نوى التلاوة، فإن نوى التلاوة لاتفسد صلاته عند الكل، وتفسد صلاة الآخذ، إلا إذا تذكر قبل تمام الفتح، وأخذ في التلاوة قبل تمام الفتح فلاتفسد، وإلا فسدت صلاته، لأن تذكره يضاف إلى الفتح۔ (الموسوعة الفقهية : ٣٢/١٥)
وإن حصل تذکرہ من نفسہ لا بسبب الفتح لاتفسد مطلقاً۔ (شامي : ۱/۶۲۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
21 جمادی الآخر 1442
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں